یورپی یونین کے رکن ممالک نے نئی پناہ گزین پالیسی اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی کے قواعد طے،امریکا جیسے سخت اقدامات کا سامنا ہوگا

Screenshot

Screenshot

یورپی یونین کے رکن ممالک نے نئی پناہ گزین پالیسی اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی کے قواعد پر اپنے حتمی مؤقف طے کر لیے ہیں۔ یہ پیش رفت پیر کے روز کونسل آف دی یورپی یونین کے جاری کردہ بیانات میں سامنے آئی۔

کونسل نے نئے سیاسی سمجھوتے کی منظوری دی ہے جس کے تحت پناہ کے قوانین، ’’محفوظ ممالک کی مشترکہ فہرست‘‘ اور پورے بلاک میں واپسی کی یکساں پالیسی کے حوالے سے مذاکرات یورپی پارلیمنٹ کے ساتھ شروع کیے جائیں گے۔ اگرچہ پارلیمنٹ نے ابھی اپنا حتمی مؤقف طے نہیں کیا، لیکن حالیہ مسودوں میں بھی وہی نکات موجود ہیں جن پر کونسل متن تیار کر رہی ہے۔

مزید برآں، رکن ممالک نے 2026 کے لیے ’’سولڈیرٹی پول‘‘ کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس کے مطابق ملک یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا وہ بحیرہ روم کے ممالک کی مدد 21 ہزار پناہ گزینوں کی منتقلی، 420 ملین یورو کی مالی امداد یا دیگر اقدامات کے ذریعے کریں گے۔

نئے قواعد کے تحت کوئی بھی یورپی ملک ایسی درخواست مسترد کر سکے گا جس میں درخواست گزار کسی ایسے ملک میں تحفظ حاصل کر سکتا ہو جسے یورپی یونین نے ’’محفوظ‘‘ قرار دیا ہے۔ ڈنمارک سمیت کئی رکن ممالک طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ پناہ کے معاملات یورپ سے باہر محفوظ تیسرے ممالک میں نمٹائے جائیں تاکہ خطرناک سفر کی حوصلہ شکنی ہو۔

رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یورپی یونین کے امیدوار ممالک کے ساتھ ساتھ بنگلادیش، کولمبیا، مصر، بھارت، کوسوو، مراکش اور تیونس کو بھی ’’محفوظ‘‘ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

واپسی کے قواعد سے متعلق بھی کونسل نے اپنا مؤقف طے کر لیا ہے۔ نئے ضوابط واپسی کے عمل کے لیے پورے یورپی بلاک میں یکساں اصول وضع کریں گے، اور پہلی بار واپسی کے احکامات پر عمل نہ کرنے والے افراد کے لیے کچھ پابندیاں بھی شامل ہوں گی۔ جن تارکین وطن نے خود سے ملک نہ چھوڑا، ان پر ’’عدم تعاون‘‘ کے باعث قید کی سزا بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رکن ممالک ’’ریٹرن ہبز‘‘ بھی قائم کر سکیں گے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نمائندہ اولیویا سندبرگ ڈیز نے ان اقدامات کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے ضوابط امریکا جیسے سخت اقدامات کی عکاسی کرتے ہیں اور تارکین وطن کی نگرانی، نظربندی اور جبری واپسی میں مزید اضافہ کریں گے۔ ان کے مطابق یہ پالیسیاں لوگوں کو مزید غیر یقینی صورتحال اور قانونی مشکلات میں دھکیل دیں گی۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے