محترمہ بے نظیر: اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم۔.27 دسمبر 2024 محترمہ کی برسی۔مظہرحسین راجہ

Mazhar

محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی سیاسی قیادت کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ وہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ذہانت، بہادری اور سیاسی بصیرت کے ذریعے پاکستان کے عوام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ وہ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور پاکستان کے معروف سیاستدان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ ان کی والدہ کا نام بیگم نصرت بھٹو تھا۔

ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1969 میں ہارورڈ یونیورسٹی گئیں، جہاں سے انہوں نے 1973 میں سیاسیات میں گریجویشن کی اور بعد ازاں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی گئیں، جہاں انہوں نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں ڈگری حاصل کی اور آکسفورڈ یونین کی پہلی ایشیائی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔

بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی، جس کے بعد بے نظیر نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔

مارشل لاء کے دوران بے نظیر کو بارہا قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ پارٹی کو منظم کیا اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھی ۔ 1984 میں بے نظیر جلاوطنی پر مجبور ہوئیں اور لندن منتقل ہو گئیں، جہاں سے وہ پاکستان میں جمہوری تحریک کی قیادت کرتی رہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی سیاسی قیادت کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ وہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ذہانت، بہادری اور سیاسی بصیرت کے ذریعے پاکستان کے عوام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

1988 میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد انتخابات منعقد ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ 35 سال کی عمر میں بے نظیر بھٹو دنیا کی کم عمر ترین اور پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کی قیادت میں ملک میں جمہوریت کی بحالی کا سفر شروع ہوا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں سماجی اصلاحات پر توجہ دی، جن میں تعلیم، صحت اور خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے کے منصوبے شامل تھے۔ تاہم، ان کی حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سیاسی دباؤ، بدعنوانی کے الزامات، اور معاشی مسائل شامل تھے۔

1993 میں بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ اس دور میں بھی انہوں نے سماجی اور اقتصادی ترقی پر توجہ دی، لیکن ان کی حکومت ایک بار پھر الزامات اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے اپنی مدت مکمل نہ کر سکی۔ 1996 میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

بے نظیر بھٹو کو اپنی زندگی میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل، شوہر آصف علی زرداری پر لگنے والے الزامات، اور جلاوطنی کے دوران پارٹی کو منظم رکھنے جیسے مسائل ان کی زندگی کے اہم پہلو ہیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود وہ کبھی اپنی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹیں۔

2007 میں بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آ کر دوبارہ سیاست میں حصہ لیا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے دور حکومت میں جمہوریت کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی مہم شروع کی۔ لیکن بدقسمتی سے 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد انہیں دہشت گردی کے ایک حملے میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک بڑا سانحہ تھی۔

بے نظیر بھٹو کی زندگی اور جدوجہد آج بھی سیاسی طور پر لاکھوں افراد کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ وہ خواتین کے حقوق، جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردار تھیں۔ ان کی قیادت نے نہ صرف پاکستان کی سیاست کو متاثر کیا بلکہ دنیا بھر میں خواتین کو سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک دی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اپنی زندگی عوام کی خدمت، جمہوریت کی بحالی، اور خواتین کے حقوق کے لیے وقف کر دی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو سے پہلے بھی بہت سے سیاسی لیڈر قتل کر دیے گئے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں گولی مار دی گئی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشیل قتل کیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی پر سب سے زیادہ ظلم و ستم کی مہم جاری رکھی گئی۔ اس پارٹی کے علاوہ بھی بہت سے دیگر لیڈران کو جلا وطن کیا گیا۔ میاں محمد نواز شریف کو دو دفعہ جلا وطن کیا گیا جبکہ الطاف حسین مستقل جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے، علاوہ ازیں پی ٹی ائی پر عصر حاضر کا بد ترین طاقت کا استعمال کیا گیا اور پی ٹی ائی سربرا سمیت کئی سیاسی کارکن اب بھی جیل میں ہیں۔ پاکستانی سیاسی لیڈروں کا قتل حقیقت میں عوام کا قتل ہوتا ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

جیسے انگریز کے دور میں "پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو” کا سلسلہ جاری رہا پاکستانی سیاسی پارٹیوں پر بھی وہی کلیہ ازمایا جا رہا ہے یعنی سیاسی پارٹیوں کو کسی ایک ایجنڈے پر اکٹھا نہ ہونے دیا جائے اور اگر وہ کوشش کریں بھی تو ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کیس بنا کر انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ خاص ایجنڈے پر کام کریں۔ مسند اقتدار پر بیٹھے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ملک ہے تو سب کچھ ہے اور ان کے اپنے بچوں کی سلامتی بھی ملک سے وابستہ ہے اس لیے جمہوری راستے پر قربانی دینے والے لیڈران کے خون کو رائیگاں مت جانے دیں اور جیسے بھی ہے مکمل طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہش کے مطابق جمہوریت بحال کی جائے اور تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں تاکہ جمہوریت کے ثمرات عام ادمی تک جلد پہنچ سکیں۔ نہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بلکہ تمام مرحومین سیاسی رہنما اور موجودہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مکمل طور پر بحال ہو اور 1973 کے آئین کے مطابق ہر فرد کو حقوق و انصاف ملے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے