ڈاکٹر قمر فاروق کی دو کتابوں،”مولانا ابوالکلام آزاد سے انٹرویو”اور “جہان خورشید “کی تقریب رونمائی..نیر اقبال نجمی۔بارسلونا سپین

کُتب علم کی شمعیں ہیں، اور ان شمعوں کے روشن کرنے والے مصنفین ہماری تہذیب کے معمار ہیں۔ ڈاکٹر قمر فاروق صاحب کی علم و ادب میں خدمات اور اُنکی دو کتابوں کی رونمائی کے لیے ایک خوبصورت تقریب سجائی گئی،قمر فاروق صاحب نے اپنی بے شمار تحریروں سے علم کے دیپ جلائے،انہوں نے اپنی فکر،تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں سے شاندار کتابیں تخلیق کر کے قارئین کو انمول تحفے فراہم کئے۔قمر فاروق صاحب اپنی منفرد سوچ،عمیق مطالعے اور خوبصورت طرزِ تحریروں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

خیالات اور احساسات کو تحریر کی شکل دینا بہت ہی خوبصورت فن ہے،میرے خیال میں اپنی ذاتی سوچ کو لفظوں میں ڈھالنا نسبتًا آسان ہوتا ہے لیکن جب بات کسی دوسرے انسان یا عظیم شخصیت کے بارے میں لکھنے کی ہو تو لکھاری کو پہلے خود کو اُس شخصیت کی روح،خیالات اور احساسات کے بہت قریب لانا پڑتا ہے اور اُس شخصیت کی زندگی کے نقوش اور اندرونی کیفیات کوسمجھنا پڑتا ہے، پھر کہیں جا کر وہ لمحہ آتا ہے جب ایک تحریر حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے.خاص طور پر جب یہ شخصیات صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی اور مولانا عبدالکلام آزاد جیسے عظیم انسانوں کی ہو تو وہاں پر قلم خود بخود جھجھکنے لگتا ہے اور لکھاری کے دل میں ایک گہری ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے.

یہی وجہ ہے ایک ماہر منجھا ہوا اور حساس لکھاری ہی ایسی شخصیات پر قلم اٹھانے کی جرأت کر سکتا ہے،میں سمجھتا ہوں قمر فاروق صاحب نے یہاں پر یہ ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی ایک طرف تو انہوں نے صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کی حکمت اور دانائی سے بھری حکایتوں کو مزین کر کے ایک کتابی شکل دے کر ہمیشہ کے لئے امر کر دیا، اور دوسری طرف انہوں نے مولانا عبدالکلام آزاد کی زندگی کے کئی اہم پہلوؤں کو روشناس کرایا جن سے ہم سب ابھی تک ناواقف تھے.

یہ کام نہ صرف تحریری مہارت کا مظہر ہے بلکہ لکھاری کی علمی گہرائی اور شخصیت سے جزباتی وابستگی کا بھی غماز ہے.
قمر فاروق صاحب نے ان دونوں عظیم ہستیوں ( مولانا عبدالکلام آزاد ۔صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی )کی زندگی پر کتابیں لکھ کر ہمارے لئے روشنی کا ایک مینار کھڑا کر دیا.ایسی تحاریر نہ صرف قاری کو متاثر کرتی ہیں بلکہ لکھاری کی شخصیت اور اسکے فن کا آئینہ بھی بن جاتی ہیں.

انکی اس عظیم کاوش پر میں اُنکو اپنی طرف سے اور اپنی تنظیم حلقۂ بیت الادب کی طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں انکا قلم مزید ایسی تحریریں اگلتا رہے جو ہمارے لئے روشنی کے مینار ثابت ہوں۔