حکومت پاسپورٹ کو ضبط یا منسوخ کر سکتی ہے، لیکن بلیک لسٹ نہیں

تحریر ۔۔عدیل خان یوسفزئی لیگل ایڈوائزر امیگریشن لاء۔۔صدر آی پاک ایسوسیشن فار سٹوڈنٹس اینڈ لیبر رائیٹس
حال ہی میں، حکومتِ پاکستان اور وزارتِ داخلہ نے 50 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ بلیک لسٹ کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ اقدام 2017 کے بعد غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے والے اور وہاں سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد کی حوصلہ شکنی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوششوں کو روکنا ہے۔
تاہم، پاسپورٹ ایکٹ 1974 میں شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے 2022 میں پاسپورٹ اور ویزا مینوئل 2006 کے پیراگراف 51 کو کالعدم قرار دیا تھا، جو وفاقی حکومت شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاسپورٹ ایکٹ کے تحت حکومت صرف پاسپورٹ کو ضبط یا منسوخ کر سکتی ہے، لیکن بلیک لسٹ کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان کے تحت، ہر شہری کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق حاصل ہے، اور کسی بھی شہری کو غیر قانونی طور پر سفر سے روکنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کسی شہری کا پاسپورٹ بلیک لسٹ کیا گیا ہے، تو وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔ متاثرہ افراد لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں تاکہ ان کے پاسپورٹ کی بحالی اور بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا حکم حاصل کیا جا سکے۔
مزید برآں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بلیک لسٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون ساز ادارے بھی اس مسئلے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔
متاثرہ افراد کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ قانونی ماہرین سے مشاورت کریں اور متعلقہ عدالتوں میں درخواست دائر کریں تاکہ ان کے آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔