ایرانی رجیم کے مخالف ہسپانوی سیاستدان پر حملہ کرنے کا ملزم ہالینڈ میں گرفتار

پولیس نے ایرانی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ہالینڈ کی پولیس نے ہسپانوی سیاستدان کو گولی مار کر زخمی کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ حملے کی زد میں آنے والا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ہسپانوی رہنما ایران کی اپوزیشن کا حامی اور سر پرست مانا جاتا تھا۔ گولی مارنے کا یہ واقعہ پچھلے سال نومبر میں میڈرڈ کی ایک سڑک پر پیش آیا تھا۔
سپین کی طرف سے بدھ کے روز بتایا گیا ہے کہ ہالینڈ کی پولیس نے مشتبہ بندوق بردار کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس گرفتاری کی باضابطہ اطلاع ہالینڈ نے سپین کو دے دی ہے۔ گرفتار کیا گیا مشتبہ شخص فرانس کا شہری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔ اہم بات یہ کہ تیونس کا بھی شہری ہے۔

پولیس کے مطابق اب تک اس واقعے میں یہ چھٹی گرفتاری ہے۔ اس تازہ گرفتار کیے گئے شخص کو تحقیقات کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔
سپین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ‘ ووکس پارٹی’ کے بانی اور قدامت پسند جماعت پیپلز پارٹی کے سابق رہنما 79 سالہ الیجو ویڈال کوآرڈراس 9 نومبر کو گولی کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا گیا تھا۔ گولی چہرے پر جبڑے میں لگی۔
سپین کی طرف سے اس گرفتاری کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ میں ذکر کیا ہے۔ تاہم گرفتار کیے گئے شخص کام ظاہر نہیں کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس نے مزید کہا کہ ملزم کو ہسپانوی عدالت کے جاری کردہ بین الاقوامی وارنٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزم کی شناخت کیا ۔ تا ہم ڈچ پولیس نے تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔
عدالتی ذریعے نے’ روئٹرز ‘ کو بتایا کہ مشتبہ شخص منشیات کے سمگلر کے قتل کے سلسلے میں فرانس میں بھی مطلوب ہے۔ سپین کے انتہائی دائیں بازو کے اس سیاست دان نے ایرانی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس کے قتل کے لیے ‘ہٹ مین ‘ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ کیونکہ اس کے جلاوطنی میں موجود حزب اختلاف کی قومی کونسل آف ایران کے ساتھ روابط ہیں۔
سپین کے اس بچ جانے والے سیاستدان یہ بتایا گیا ہے کہ ‘اب تک گرفتار کیے گئے افراد ثانوی تھے، لیکن یہ مبینہ ‘ہٹ مین ‘ایک اہم پیش رفت ہے اور پولیس یقینی طور پر ان لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے اس سے پوچھ گچھ کرے گی جو حملہ کرانے کے پیچھے ہیں۔ وڈال کواڈراس نے رائٹرز کو بتایا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں مکمل یقین ہے کہ ایرانی حکومت اس کے پیچھے تھی، حالانکہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے