سقوط ڈھاکہ کا سانحہ فاجعہ اور 1971 کے بنگلہ دیش سے 2024 کے بنگلہ دیش تک ۔۔تحریر نعیم اختر عدنان

470141150_1051027690155991_2113471758511219562_n

16دسمبر1971کادن متحدہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین اور المناک ودلخراش واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کو دولخت کردیا گیا ،ہر باشعور اور غیرت مند پاکستانی اس دن کو رنج و الم کے جذبات سے یاد کرتا ہے یہ سلسلہ ،،نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ،،کے مصداق طویل ماضی کے روز و شب  پر محیط ہے ،مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان پر مشتمل  دو الگ الگ خطوں کے  باشندوں کو اسلام کے رشتہ اخوت و محبت نے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو رکھا تھا مگر اپنوں کی عاقبت نا اندیش پالسیوں اور اقتدار کی حریفانہ کشاکش وبندر بانٹ اور غیروں کی ریشہ دوانیوں اور گھناؤنی سازشوں کے ذریعے مشرقی پاکستان  پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش کے روپ میں الگ ملک بن گیا -دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت دولخت کردی گئی یہ سانحہ اس لئے رونما ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں مملکت کے اختیار و اقتدار کے خزانوں کی کنجیاں تھیں وہ 

،رنگ گل کا سلیقہ ہے نہ بہاروں کا شعور ،

ہائے کن ہاتھوں میں تقدیر حنا ٹھہری ہے کا مکمل نمونہ تھے   دوسری جانب پاکستان اور مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کا سازشی کردار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود تھا – سقوط ڈھاکہ کے موقعہ پر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ببانگ دھل پوری بے شرمی و ڈھٹائی سے یہ متکبرانہ  بیان دیا کہ ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے اور دوقومی نظریے کو  خلیج بنگال میں پھینک دیا ہے –  تاریخ کے ماہ و سال گزرتے رہے مشرقی پاکستان کو عملا بنگلہ دیش کا روپ دینے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو نئے ملک کے بنگلہ بندھو کی حثیت حاصل ہوگئی ،چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کی  مانند شیخ مجیب الرحمٰن کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا بنگلہ دیش کی داخلی سیاست سمندر میں موجزن مدو جزر کی طرح مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہی اور ،تخت گرائے  جاتے رہے اور تاج اچھالے  جاتے رہے ، یہاں تک کہ  شیخ مجیب الرحمٰن کی زندہ بچ جانے والی بیٹی حسینہ واجد بنگلہ دیش کے سیاہ و سفید کی مالک و مختار بن گئی ،موصوفہ نے  جون1996سے جولائی 2001تک اور بعد ازاں جنوری 2009سے اگست2024تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے طور پر  اپنے قاہرانہ اور جابرانہ اقتدار کا ڈنکہ بجایا  ،مجموعی طور پر موصوفہ کے اقتدار کا سورج  بنگلہ دیش پر انیس سال تک چمکتا رہا ، حسینہ واجد کو ایک خاتون سربراہ حکومت کی حیثیت سے دنیا کی  سب سے طویل عرصہ کی حامل حکمرانی کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا – اپنے دور اقتدار میں جہاں انہوں نے اپنے دیگر سیاسی مخالفین کا عرصہ حیات تنگ کئے رکھا ،وہیں جماعت اسلامی بنگلہ پر پابندی لگا کر اس کے سرکردہ اور عمر رسیدہ راہنماؤں کو قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار ہی نہیں کیا بلکہ انہیں تختہ دار  پر چڑھانا اپنا نصب العین بنا لیا ،ہر کمالے را زوال کے مصداق تاریخ نے کروٹ لی اور بنگلہ دیش میں جنم لینے والی طلبہ تحریک   آ ندھی اور طوفان کی مانند پورے ملک پر  چھا گئی  جس کے نتیجے میں  حسینہ واجد کا مضبوط اقتدار  ریت کی دیوار کی مانند زمیں بوس ہوگیا -حسینہ واجد ملک سے فرار ہوکر بھارت چلی گئیں ،ملک کا اقتدار طلبہ تحریک  کی  قیادت کرنے والے راہنماؤں کی قائم کردہ عبوری کونسل کی ذمہ داری قرار پایا -بنگلہ دیش میں 5/اگست 2024کو رونما ہونے والی تبدیلی  بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے بھی ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی کے طور پر  محسوس کی گئی – بھارت کے طول و عرض میں اس تبدیلی پر صف ماتم بچھ گئی  اور یوں ہندو سامراج کا سینہ کرچی کرچی ہوتا نظر آ یا ، بنگلہ دیش کی عبوری قیادت نے  پاکستان سے اپنی قربتوں کے سفر کا نئے سرے سے آ غاز کیا  جسکا جواب  پاکستان کی جانب سے خوش آمدید اور مرحبا کے اسلامی اخوت کے جذبے سے  دیا گیا  ،ماضی کے دو  ناراض ممالک   اسلامی اخوت کے لازوال رشتہ میں کچے دھاگے کی مانند اس شان سے مربوط  ہونے لگے کہ   

اس قدر ہوگی ترنم آ فریں باد بہار

نگہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی 

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک 

بزم گل کی ہم نفس بادصبا ہو جائے گی

شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز

 اس چمن کی ہر کلی  درد آ شنا ہو جائے گی 

،ان خوش کن مناظر کا نظارہ  آ ج ہماری گنہگار آ نکھوں کو دیکھنے کے لئے نصیب ہورہا ہے- اگست  پاکستان کے قیام کا مہینہ ہے  اور اسی مہینہ میں بنگلہ دیش  میں رونما ہونے والی تبدیلی نے ماضی میں چلنے والی باد سموم اور باد سر سر  کا رخ پھیر کر  اس کی جگہ باد نسیم اور نکہت باد بہاری کی آبیاری کردی ہے  11ستمبر کا دن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح کا یوم  وفات ہے جسے  برسی کے طور پر  قومی ایام کی طرز پر منایا جاتا ہے ،نئے بنگلہ دیش میں اس دن کو بنگلہ دیش کی تریپن سالہ  تاریخ میں  پہلی مرتبہ ایک تقریب منعقد کر کے  اس قدر آ ب و تاب اور شاندار انداز سے منایا گیا کہ  مفکر پاکستان اور حکیم الامت علامہ اقبال کے یہ  الفاظ  ذھن و قلب میں نمایاں ہونے لگے ہیں 

 ایسی چنگاری بھی یارب ہماری خاکستر میں تھی 

 یہ کلی بھی اسی گلستان خزاں منظر میں تھی 

اپنے صحرا میں بہت آ ہو ابھی پوشیدہ ہیں 

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں 

  کے مصداق دو قومی نظریہ ازسرِنو   زندہ  بلکہ پائندہ ہوگیا  کہ نظریات ہی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں 

قائد اعظم کی برسی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں یہ الفاظ بھی سماعتوں نے آ ہنگ بلند سے سنے ،،اگر محمد علی جناح نہ ہوتے تو پاکستان معرض وجود میں نہ آ تا اور اگر پاکستان کا قیام نہ ہوتا تو بنگلہ دیش  بھی دنیا کے نقشے پر ایک آ زاد مملکت کی حیثیت سے موجود نہ ہوتا  ،یوں قائد اعظم کو  نہ صرف  پاکستان کے مؤسس اور بانی کا مقام حاصل ہے بلکہ  بنگلہ دیش  کی  قوم کے ساتھ بھی ان کا وہی  مقام و مرتبہ ہے  یوں ماضی کا مشرقی پاکستان اور آ ج کا نیا بنگلہ دیش  پاکستان کے ساتھ اپنے اسلامی تشخص کے ، اپنے لافانی و لاثانی اور لازوال  رشتے کی تجدید کرنے کا اعلان کر رہا ہے ،

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے 

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر 

 ، بلکہ اندرا گاندھی کے  مکروہ اور ہندوتوا کے زہر میں بجھے ہوئے الفاظ پر بھی نفرین  کے چار حرف بھیج رہا ہے  بقول شاعر 

 تازہ انجم کا فضائے آسمان میں ہے ظہور 

دیدہ انساں سے  نامحرم ہے جن کی موج نور 

جو ابھی ابھرے ہیں  ظلمت خانہ ایام سے 

جن کی ضو نا آشنا ہے قید صبح وشام سے 

جن کی تابانی میں انداز کہن بھی نو بھی ہے 

اور تیرے کوکب تقدیر  کا پر تو بھی ہے ،،،،،،،

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے