لگرونیو کے ایک اسکول میں طالبہ کو حجاب پہننے سے روکنے پر سماجی ہلچل

Screenshot
لگرونیو (دوست نیوز)ایمان اکرم لگرونیو کے انسٹی ٹیوٹ ساگاستا میں انٹرنیشنل بیکالوریٹ کی طالبہ، نے اپنے حق میں 8 ہزار سے زائد دستخط جمع کرلیے ہیں تاکہ انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت مل سکے۔ 17 سالہ ایمان کا کہنا ہے کہ وہ اس کے بغیر اپنے مذہبی اصولوں پر عمل نہیں کر پاتیں اور چاہتی ہیں کہ ان کے اس فیصلے کا احترام کیا جائے جو کسی کے لیے نقصان دہ نہیں۔

گزشتہ پیر کو ایمان نے پابندی کو نظرانداز کرتے ہوئے حجاب کے ساتھ اسکول کا رخ کیا تو انہیں کلاس سے نکال دیا گیا۔ اس اقدام کے خلاف مسلم کمیونٹی اور طلبہ نے اسکول کے باہر احتجاج کیا۔
ایمان نے ’’لا وانگواردیا‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے اس اسکول میں داخلہ اس لیے لیا کیونکہ یہ لا ریوجا کا واحد ادارہ ہے جو انٹرنیشنل بیکالوریٹ پیش کرتا ہے۔ ’’میں وکیل بننا چاہتی ہوں اور مستقبل میں کسی غیرملکی یونیورسٹی میں پڑھنے کا ارادہ رکھتی ہوں‘‘، ان کا کہنا تھا۔ پاکستانی نژاد ایمان اپنی فیملی کی پہلی فرد ہیں جنہوں نے ثانوی تعلیم (ESO) مکمل کی ہے۔

اسکول انتظامیہ کے مطابق یہ فیصلہ مذہب کے خلاف نہیں بلکہ اندرونی ضابطوں کے تحت لیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر روثیو کالیکھا نے کہا کہ ضابطے کی شق 80.4 میں طلبہ کو ’’مناسب لباس‘‘ پہننے کی ہدایت دی گئی ہے اور وضاحت میں ٹوپیاں، کیپس، ہیٹ اور ملتے جلتے لباس پر پابندی ہے۔ حجاب کا صریح ذکر نہیں، لیکن اسے بھی اسی ذیل میں لیا گیا ہے۔
انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ سر ڈھانپنے سے سیکورٹی اور نگرانی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، مثلاً سی سی ٹی وی کیمروں میں شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی بعض اساتذہ نے اسے ’’صنفی مساوات‘‘ کے اصول سے متصادم قرار دیا تھا کیونکہ لڑکوں کو سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں۔

تعلیمی کونسلر البرتو گالیانا نے بتایا کہ اس معاملے پر ایک قانونی رپورٹ تیار کی گئی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ آیا حجاب پر پابندی آئینی حقوق سے متصادم تو نہیں۔ رپورٹ میں مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا جن کے مطابق اسکول کے قواعد کی بنیاد پر حجاب پر پابندی کو درست قرار دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ یہ ’’دیگر طلبہ کے حقوق اور عوامی نظم‘‘ کے تحفظ کے لیے ہو۔
اگرچہ ایمان دباؤ کی وجہ سے وقتی طور پر حجاب اتار چکی ہیں تاکہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں، لیکن وہ اس جدوجہد کو بھولنے کو تیار نہیں۔ ان کے بقول:’’میں قانون نہیں جانتی، لیکن اگر وکیل بنی تو انسانی حقوق کے دفاع اور معاشرے میں نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کروں گی۔‘‘