میرے بیانات “اسلام کے تمام پیروکاروں” کے خلاف نہیں بلکہ “اسلامی شدت پسندوں” کے خلاف تھے،پادری کستودیو بالیستر

بارسلونا: اسپین کے شہر مالاگا کی ایک عدالت میں 1 اکتوبر کو پادری کستودیو بالیستر (61) کے خلاف مقدمے کی سماعت متوقع ہے، جس میں انہیں اسلام مخالف بیان دینے اور نفرت انگیزی کے جرم میں تین سال قید کی سزا کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ مقدمہ “مسلمانان کنترا اسلاموفوبیا” نامی تنظیم نے دائر کیا ہے، جنہوں نے مارچ 2017 میں بالیستر اور دیگر پادریوں کے ایک ٹی وی پروگرام میں کیے گئے بیانات کو بنیاد بنایا۔

پادری بالیستر نے عدالت میں اپنے دفاع میں کہا ہے کہ ان کے بیانات “اسلام کے تمام پیروکاروں” کے خلاف نہیں بلکہ “اسلامی شدت پسندوں” کے خلاف تھے جو تشدد اور دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کا مقصد آزادیٔ اظہار اور مذہبی آزادی کا استعمال تھا۔
بالیستر نے اس مقدمے کو “ظلم و زیادتی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے الزامات کے تحت قید کی سزائیں غیر متناسب ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بعض سیاسی شخصیات کو اسی طرح کے بیانات پر قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جبکہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہو رہی ہے۔
مدعی تنظیم “مسلمانان کنترا اسلاموفوبیا” نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی کے ذریعے مذہبی منافرت اور امتیاز کے خلاف واضح پیغام دینا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اس مقدمے کے پسِ منظر میں، اس تنظیم پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ وہ مقامی حکومت سے مالی امداد حاصل کرتی ہے، جس کے ذریعے مبینہ طور پر قانونی چارہ جوئی کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ بالیستر کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی سیاسی مقصد کے تحت کی جا رہی ہے۔
یہ مقدمہ اسپین میں مذہبی آزادی، آزادیٔ اظہار اور نفرت انگیزی کے درمیان توازن کے حوالے سے ایک اہم قانونی بحث کو جنم دے رہا ہے۔ عدالت کا فیصلہ آنے والا ہے کہ آیا کستودیو بالیستر تین سال قید کی سزا بھگتیں گے یا ان کا بیان آزادیٔ اظہار کے دائرے میں آتا ہے۔