سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کانفرنس،صاحبزادہ سلطان احمد علی خصوصی خطاب

بارسلونا(دوست نیوز)اصلاحی جماعت عالمی تنظیم العارفین بارسلونا کے مرزا عقیل احمدنے سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کانفرنس کا انعقاد کیا۔کانفرنس سے صاحبزادہ سلطان احمد علی (سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) خصوصی خطاب کیا

سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کی سعادت چوہدری محمد سمیع نے حاصل کی جبکہ ہدیہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم چوہدری محمد زبیر نے پیش کیا۔کانفرس کی صدارت قونصل جنرل مراد علی وزیر نے کی جبکہ نظامت کے فرائض حافظ عبدالرزاق صادق نے سر انجام دئیے

صاحبزادہ سلطان احمد علی نے اپنے مفصل بیان میں دو اہم نکات اٹھائے ایک تو شرعی حدودِ حرم میں شکار اور درختوں کو نقصان پہنچانے کی ممنوعیت، اور دوسرا فطرت کے تحفظ کا آج کا عالمی چیلنج۔اسلام میں دونوں حرمین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حرمت اور حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث میں واضح طور پر ذکر ہے کہ حرم میں شکار کرنا، جانوروں کو ہلاک کرنا یا درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ یہ حکم صرف مذہبی تقدس کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک فطری اور اخلاقی اصول پر بھی مبنی ہے: ماحول اور حیاتِ کا تحفظ۔

آج کے زمانے میں جب دنیا “کلائمٹ چینج” یعنی ماحولیاتی تبدیلی اور گرمی میں اضافے کے چیلنجز سے دوچار ہے، یہ احکام ایک اہم سبق دیتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فطرت کو محفوظ رکھنا اور اس کے وسائل کا خیال رکھنا انسانی ذمہ داری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اسی روح کو ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کو قدرت کے ساتھ توازن میں رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بہت سی بائبل کی تشریحات اور تبصرے جن میں سائنسی حوالہ جات دیے گئے ہیں، جدید سائنس ان کو مکمل طور پر ثابت نہیں کر پاتی۔ لیکن قرآن مجید کی تشریحات کے معاملے میں یہ فرق ہے کہ قرآن میں بیان کی گئی باتیں جدید سائنسی تحقیق سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کے مطابق قرآن کی یہ باتیں “سو فیصد” درست ہیں اور جدید سائنس ان کی تصدیق کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کوکتاب “بائبل قرآن سائنس” کو ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ قرآن کو جدید دنیا کے تناظر میں کیسے تجزیہ کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے ایمان کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ نہ اس میں کسی بشر کی دخل اندازی ہے، نہ اس میں کوئی تبدیلی یا تخلیق، اور یہ آخری آسمانی کتاب ہے۔ اس کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہیں ہوئی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی اس سلسلے میں اہم ہیں کیونکہ وہ قرآن کی تشریح اور عملی اطلاق کا ذریعہ ہیں۔

دلچسپ اور معنی خیز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا جو دراصل ڈاکٹر مورس بکائی (Maurice Bucaille) اور ڈاکٹر حمیداللہ کے درمیان مکالمے سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر بکائی، جو ایک غیر مسلم سائنس دان کے طور پر قرآن و حدیث کا سائنسی پہلو جاننے کی کوشش کر رہے تھے، ایک موقع پر اس حدیث پر سوال اٹھاتے ہیں جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “مکھی کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر شفا۔”

ڈاکٹر بکائی کا سوال یہ تھا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر سائنس میں اس کی کوئی مثال کیوں نہیں ملتی۔ اس پر ڈاکٹر حمیداللہ نے نہایت علمی اور منطقی جواب دیا:
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے مکہ یا مدینہ کے خطے میں پائی جانے والی تمام مکھیوں پر تحقیق نہیں کی تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسی مکھی موجود نہیں؟ پھر انہوں نے مزید وضاحت کی کہ دنیا میں بہت سی جاندار اقسام ایسی ہیں جو ختم ہو چکی ہیں۔ کچھ کی نسل پچاس سال پہلے، کچھ کی سو یا دو سو سال پہلے مٹ گئی۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ایسی مکھی موجود ہو جس کی نسل اب ختم ہو چکی ہو۔

یہ جواب سن کر ڈاکٹر مورس بکائی نے کہا کہ بات واضح ہو گئی ہے، اور انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ حدیث سائنس کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے لیے تحقیق کی گنجائش موجود ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے مطابق اب وہ احادیث جو جدید سائنسی مشاہدات سے مطابقت رکھتی ہیں، ان کی تعداد “اٹھانوے سے نینانوے فیصد” تک پہنچ گئی۔سائنس ہر چیز کا انکار نہیں کرتی، بلکہ ابھی تک جس چیز کی تحقیق نہیں ہوئی، اس کے بارے میں خاموش رہتی ہے۔
اسلام کا علم اور وحی کا دائرہ بعض اوقات سائنس سے آگے ہوتا ہے، کیونکہ وحی کا ماخذ علمِ الٰہی ہے، جب کہ سائنس انسانی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر ارتقاء پذیر علم ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی احادیث اور رہنمائی میں کتنی سائنسی حقیقتیں پوشیدہ ہیں جنہیں جدید سائنس اب سمجھنا شروع کر رہی ہے۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد ایک جرمن فزیشن ڈاکٹر شارلس موٹی (Charles Moaty) اپنی بیماری کے علاج کے لیے مختلف جدید طریقوں سے گزرا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ایک جرمن ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کسی عرب ملک میں جا کر “لوکل فزیشن” یعنی مقامی طبیب سے علاج کروائے۔ ڈاکٹر موٹی عرب پہنچا، وہاں ایک بدو اسسٹنٹ کے ذریعے ایک مقامی حکیم سے ملا، جس نے پوچھا کہ کیا تم تکلیف برداشت کر سکتے ہو؟ موٹی نے کہا، اگر میں صحت یاب ہو جاؤں تو بالکل۔

بدو طبیب نے کہا: “چند دن صرف اونٹنی کا دودھ اور پیشاب استعمال کرو۔”یہ سن کر وہ حیران ہوا، مگر جب اس نے علاج کیا تو صحت بحال ہوگئی۔ یہ واقعہ 1924 سے 1926 کے درمیان کا ہے۔ اُس وقت تک یورپ جدید میڈیکل سائنس میں بہت آگے جا چکا تھا، مگر یہاں علاج کا اثر “نیچرل ٹریٹمنٹ” سے ہوا۔
ڈاکٹر موٹی نے اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کچھ بیماریاں علاقائی ماحول اور خوراک سے جڑی ہوتی ہیں، اور ان کا علاج بھی اُسی خطے کے قدرتی ذرائع میں موجود ہوتا ہے۔ ہر جگہ کی فطرت اپنے لوگوں کے امراض کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔

جب ڈاکٹر حمیداللہ نے یہ مثال مورس بکائی کے سامنے پیش کی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ حدیث جس میں نبی ﷺ نے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب سے علاج کا ذکر کیا۔ سائنسی لحاظ سے بھی ممکن ہے۔ اس سے مورس بکائی کا یقین مزید مضبوط ہوا کہ نبی ﷺ کے فرمودات محض مذہبی یا علامتی نہیں بلکہ حقیقی سائنسی بنیاد رکھتے ہیں۔
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی تعلیمات اور فطرت میں گہرا ربط ہے۔ جو بات آج “نیچرل میڈیسن” یا “لوکل ہیلتھ سسٹم” کے نام سے دوبارہ مقبول ہو رہی ہے، وہ دراصل اسی حکمتِ نبوی کی ایک جھلک ہے۔
آپ نے سورۃ الفتح، آیت 28 بیان کی یہ قرآن کی اُن آیات میں سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے مشن اور دینِ اسلام کی حتمی کامیابی کا اعلان فرمایا۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے:“وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے، اور گواہ کے طور پر اللہ کافی ہے۔”
یہ آیت صرف ایک تاریخی بیان نہیں بلکہ ایک الٰہی وعدہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اپنے نبی ﷺ کو “الہُدیٰ” یعنی مکمل ہدایت کے ساتھ، اور “دینِ حق” یعنی سچائی پر مبنی نظامِ زندگی کے ساتھ بھیجا۔ مقصد یہ ہے کہ یہ دین باقی تمام نظاموں، نظریات، اور ادیان پر غالب آ جائے۔ فکری طور پر، اخلاقی طور پر، اور عملی طور پر۔یہ غلبہ صرف تعداد سے نہیں بلکہ اثر، اخلاق، علم، اور کردار سے مراد ہے۔
دنیا میں مسلمان ابھی سب سے بڑی آبادی نہیں، لیکن اسلام کے پیغام کی رسائی اور اثر آج ہر جگہ موجود ہے۔
“وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ” — “اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کر دیا” — یہ وعدہ اسی تسلسل کا حصہ ہے۔اللہ نے حضور ﷺ کے ذکر کو زمین پر بھی بلند کیا اور آسمانوں میں بھی۔ اذان، نماز، تلاوت، درود، اور لاکھوں زبانوں پر آپ ﷺ کا نام ہر لمحہ بلند ہو رہا ہے۔
یہی امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغامِ حق کو آگے پہنچائے، حضور ﷺ کے دین کی ترویج (اشاعت)، تبلیغ، اور نمائندگی کرے۔اسلام کی سربلندی صرف اللہ کا وعدہ نہیں بلکہ امت کی امانت ہے۔یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس مشن کا حصہ ہے۔ اپنے عمل، علم، اور کردار سے دین کو غالب کرنے کی کوشش کرنا۔
اگر کبھی ایسا وقت آ جائے کہ زمین پر کوئی ایک شخص بھی رسول اللہ ﷺ کا نام لینے والا نہ رہے، تب بھی آپ ﷺ کا دین اپنی صداقت، سچائی، اور فطری برتری کے باعث ہر دوسرے دین پر غالب رہے گا۔ اس کی حقانیت انسانوں کی گواہی سے نہیں، بلکہ اپنے الٰہی ماخذ سے ثابت ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر بات ختم نہیں بلکہ عمل شروع ہوتا ہے۔ہم جب یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ دینِ اسلام سائنٹیفکلی، ایڈیومیکلی، ایجوکیشنلی اور ہسٹورکلی ایک کامل اور ابدی سچائی ہے، تو اگلا مرحلہ صرف اس کے دعوے کا نہیں بلکہ عملی وابستگی کا ہوتا ہے۔یہ دین اپنے ماننے والوں سے صرف یقین نہیں بلکہ کردار، اطاعت، اور استقامت مانگتا ہے۔ہم میں سے کوئی شخص غلطی کر سکتا ہے۔ میں، آپ، یا کوئی اور، مگر دینِ محمدی ﷺ اپنے اصولوں میں کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔یہ دین نہ کسی کجی میں ہے، نہ کسی تضاد میں۔یہ وہ کامل نظام ہے جو انسان کو توازن، عدل، علم، اور روشنی کی طرف بلاتا ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے:
“پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر،
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔”
سمجھنے والے کے لیے ایک اشارہ کافی ہے، لیکن دلائل کا سلسلہ کتابوں میں محفوظ ہے اور مطالعے کے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔
آج امت کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ دین کے باعث نہیں بلکہ دین سے دوری کے باعث ہیں۔آج مسلم معاشروں میں جو انتہا پسندی، نفرت، اور تقسیم نظر آتی ہے، وہ دین کی وجہ سے نہیں، دین کو چھوڑنے کی وجہ سے ہے۔اسلام کا متن (Text) تو آج بھی وہی ہے، مگر اس کی تعبیر (Interpretation) میں بگاڑ آیا ہے۔یہ مسئلہ قرآن یا سنت کا نہیں بلکہ سمجھنے اور بیان کرنے والوں کا ہے۔
اگر کوئی شخص دین کی تعبیر غلط کرتا ہے تو غلطی اُس کی ہے، دین کی نہیں۔جس متن یعنی قرآن و سنت کی ہم تعبیر کرتے ہیں، وہ آج بھی ہر نقص سے پاک، ہر خطا سے مبرا، اور اللہ کی طرف سے محفوظ ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مسلمان اپنے اخلاق، کردار یا معاملات میں کمزور ہے، تو یہ اس کی شخصی کوتاہی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام سخت یا متشدد مذہب ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے کردار، اخلاق، اور عمل سے وہ اسلام پیش کریں جو نبی کریم ﷺ نے سکھایا۔
قرآن اور سنت نے ہمیں جس نرمی، انصاف، اور صداقت کا درس دیا ہے، وہی ہمارے ایمان کا اصل چہرہ ہے۔ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم سچے نبی ﷺ، سچے دین، اور سچی کتاب پر ایمان رکھ کر اپنی زندگی کو اس سچائی کے مطابق ڈھالیں۔سچائی صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔جتنا ہم سچ کو اپنی زندگی میں جگہ دیں گے، اتنا ہی ہم اپنے دین کے قریب ہوں گے۔اور یہی قرب، یہی سچائی، ہماری دنیاوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔

قونصل جنرل مراد علی وزیر نے اپنے خطاب میں کہا ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی صرف علم یا ٹیکنالوجی سے آتی ہے، مگر دراصل ترقی نظم، احساسِ ذمہ داری، اور فطرت کے احترام سے پیدا ہوتی ہے۔آپ دیکھیں، غیر مسلم معاشرے جہاں قرآن یا حدیث کو نہیں مانتے، وہاں ماحول، نظام اور معاشرت میں وہ اصول اپنائے جا رہے ہیں جو اسلام نے صدیوں پہلے سکھائے۔وہ اپنے ملک میں درخت نہیں کاٹ سکتے، بغیر اجازت کسی جانور کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔جبکہ ہم، جو قرآن اور سنت کو ماننے والے ہیں، درختوں کی بے تحاشا کٹائی کر کے، فطرت کے نظام کو خود تباہ کر رہے ہیں۔
پھر جب سیلاب، گرمی، یا موسمی آفت آتی ہے تو ہم اسے اللہ کی سزا سمجھتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ہم یہ مصیبتیں اپنے ہی عمل سے نازل کر رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اچھا کون ہے؟ وہ جو نہیں مانتے مگر عمل کرتے ہیں، یا ہم جو مانتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے؟میرے عزیز ساتھیو، میرا پیغام سادہ ہے:اگر ہم ایک حدیث پر بھی سچے دل سے عمل کر لیں تو ہماری زندگی بدل سکتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ زمین پر چلو پھرو، حرکت میں رہو، تمہیں صحت ملے گی، بیماریوں سے نجات ملے گی۔ہم میں سے کتنے لوگ روزانہ چلتے ہیں،ایکسرسائز کرتے ہیں؟اگر ہم صرف یہ سنت اپنا لیں تو نہ صرف ہماری صحت بلکہ ہمارا طرزِ زندگی بھی بہتر ہو جائے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پیٹ نکلے لوگ پسند نہیں، یعنی سستی اور بے عملی پسند نہیں۔آئیے، ایک چھوٹی سی سنت سے آغاز کریں۔اپنے جسم کو متحرک رکھیں، زمین کی قدر کریں، فطرت سے جڑیں — یہی اسلام کا پیغام ہے۔یہی وہ طرزِ زندگی ہے جو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

چوہدری امانت حسین مہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہماری آپ سے محبت اور تعلق کوئی آج کا نہیں، پرانا ہے۔جب ہم چھوٹے تھے تو آپ کے دادا ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ہمیں یاد ہے، وہ گھوڑوں کی باتیں کرتے، بتاتے کہ فلاں گھوڑا فلاں راہ پر ہے، فلاں جگہ پر ہے۔وہ دن بڑے سادہ اور خوبصورت انسان تھے۔وہ دو تین دن ہمارے گاؤں میں رہتے، اور ان کا ایک خاص رُتَبہ اور رُوحانی فضا ہوتی تھی۔
آج یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسی محترم شخصیت یہاں تشریف لائیں،اور ہمیں آپ کو سننے کا موقع ملا۔یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ آج سائنس نے بہت ترقی کی ہے،اور ہمارے اپنے ملک پاکستان نے بھی۔
ہمیں یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ ہمارے قونصل جنرل مراد علی وزیر نہ صرف اچھے اسلامی مقرر ہیں بلکہ ایک فاضل اسکالر بھی ہیں۔ان کی گفتگو سن کر بہت لطف آیا اور ایمان تازہ ہو گیا۔

آخر میں، میں اپنے تمام دوستوں اور بھائیوں کا، خاص طور پر ان احباب کا جو اپنے گاؤں سے یہاں تشریف لائے ہیں، دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔جو دوست باہر بیٹھے ہیں، ان کا بھی ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔اللہ ہم سب کو سلامت رکھے، آپ سب کا بہت شکریہ۔
کانفرنس کے اختتام پر صاحبزادہ سلطان احمد علی نے دعا کرائی اور مہمانوں کو پرتکلف عشائیہ دیا گیا