مسلم سوسائٹی یوتھ کے زیراہتمام یوم اقبال کی تقریب،بچوں نے اقبال کی شاعری سنائی،بڑوں کی داد
بارسلونا(دوست نیوز)نو مبر یومِ اقبال کی پُروقار تقریب یوتھ مسلم سوسائٹی اسپین کے زیرِ اہتمام ابراہیم اسلامک سنٹر میں ہوئی،جس کا مقصد شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و پیغام کو اسپین میں پروان چڑھنے والی نئی نسل تک پہنچانا تھا۔

تقریب میں اسپین کے مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم پاکستانی بچوں نے بھرپور شرکت کی۔ طلباء و طالبات نے علامہ اقبالؒ کی شاعری،تقاریر،نظمیں اور علامہ کے اشعار کی تشریح پیش کر کے سامعین کے دل جیت لیے

تقریب کے مہمانِ خصوصی ویلفیئر اتاشی چوہدری سالک گوندل اور پاک فیڈریشن اسپین کے صدر جناب فیض اللہ تھے۔جبکہ تقریب کی صدارت چوہدری طاہر فاروق وڑائچ نے کی۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ناصر شہزاد اور محمد عثمان نے سرانجام دئیے

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا۔محمد عثمان نے علامہ اقبال کی ایک نظم کو ترنم سے گا کر سنایا۔

مہمانانِ خصوصی نے اپنے خطابات میں کہا کہ علامہ اقبالؒ کا پیغام نوجوانوں کے لیے حوصلہ، خودی اور بیداریِ فکر کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے یوتھ مسلم سوسائٹی اسپین کی اس مثبت علمی و فکری کاوش کو سراہا۔
ویلفیئر اتاشی چوہدری سالک گوندل نے اپنے خطاب میں کہا

برصغیر کے مسلمان چاہتے تھے کہ اُن کے مسائل حل ہوں، اُنہیں ترقی کے مواقع ملیں، نوکریاں ملیں اور اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا دوسرے طبقات کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر اُن کے لیے کوئی واضح راستہ موجود نہیں تھا۔

ایسے میں ہمارے رہنماؤں نے اُنہیں سمت دکھائی، خاص طور پر علامہ اقبال کی شاعری نے نوجوانوں میں خود اعتمادی پیدا کی۔ اقبال نے اُنہیں “خودی” کا سبق دیا اور یہ احساس بیدار کیا کہ ایمان، اتحاد اور محنت کے ساتھ کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی اقبال کا پیغام تھا جس نے مسلمانوں کو ایک مقصد کے تحت متحد کیا، اور جب انہوں نے اخلاص کے ساتھ محنت کی تو بالآخر وہ خواب حقیقت بن گیا جو اقبال نے دیکھا تھا۔ ایک آزاد مملکت کی صورت میں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں ہمیں پھر اسی پیغام کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد، احترام اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہر فرد کی عزت کرنی چاہیے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

یہ خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے بہت ضروری ہے، چاہے وہ اسپین میں ہوں یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ زندگی صرف نوکری یا ذاتی مفاد تک محدود نہیں، بلکہ اپنی ملت، اپنی برادری اور اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہی اصل کامیابی ہے۔

آپ کی یہ کوشش کہ نوجوانوں کو اپنی شناخت، اپنی تاریخ اور اپنی اقدار سے جوڑا جائے، یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ یہی چھوٹے چھوٹے قدم آگے چل کر بڑی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں۔اقبال کی شاعری کو سمجھنا واقعی ایک عمر کا کام ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اُن کے چند بنیادی پیغامات کو دل سے سمجھ لیں اور ان پر عمل کر لیں تو یہی ہماری فکری اور قومی رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔اقبال کا پیغام مایوسی کے خلاف تھا۔ وہ انسان کو ہمیشہ اُمید، محنت اور یقین کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے حوالہ دیا:

“نہیں ہے نااُمید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”
یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اگر ہم اخلاص کے ساتھ محنت کریں تو زمین میں پھر سے زندگی جنم لے سکتی ہے۔
یہی جذبہ آج کے نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا سبق ہے۔ ہر شخص کا کردار اہم ہے۔ چاہے وہ قونصلیٹ میں ہو، کسی تنظیم کا سربراہ ہو، مصنف ہو یا ایک عام طالب علم۔ جب ہر فرد اپنی ذمہ داری مثبت انداز میں نبھاتا ہے تو معاشرہ خود بخود بہتر ہوتا ہے۔اقبال کا اصل پیغام یہی ہے، نااُمیدی چھوڑ کر یقین، عمل اور اتحاد کے ساتھ اپنی قوم اور ملک کے لیے کام کرنا۔

چوہدری طاہر فاروق وڑائچ نے اپنے خطاب میں کہا اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صرف دو چیزیں سکھا دیں، قرآنِ پاک کو ترجمے کے ساتھ سمجھنا اور سیرتِ رسول ﷺ کو جاننا، تو یہ ان کی پوری زندگی کے لیے راہِ ہدایت بن جائے گا۔
واقعی، جیسے آپ نے میکل ایچ ہارٹ کی کتاب کا حوالہ دیا، جس میں دنیا کی سو بااثر شخصیات میں نبی کریم ﷺ کو سب سے پہلے مقام دیا گیا، یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت، کردار اور اخلاق کی کوئی مثال نہیں۔ وہی سیرت دراصل اسلام کا چہرہ ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان گھرانوں میں بچے خود اس سے ناواقف ہیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو قرآن اور سیرت سے روشناس کرانے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف عبادت کرنے والے نہیں بلکہ کردار والے انسان بنیں، جو عدل، رحم اور محبت کے ساتھ دنیا میں روشنی پھیلائیں۔
جیسا کہ اقبال نے فرمایا:
“قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کر دے”
یہ پیغام صرف عبادت کا نہیں بلکہ عمل، کردار اور خدمتِ انسانیت کا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا ہے کہ وہ جہاں بھی ظلم و ناانصافی دیکھیں، وہاں حق کی آواز بنیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو نامِ محمد ﷺ سے دنیا کے اندھیروں کو مٹا سکتی ہے۔

طاہر فاروق وڑائچ نے کہا کہ ہم نے اپنی تاریخ سے سیکھنا چھوڑ دیا ہے، حالانکہ ہمارے آباؤ اجداد علم، انصاف، دیانت اور کردار کی ایسی مثالیں قائم کر گئے جن کی گونج صدیوں تک رہی۔ وہ دنیا پر تلوار سے نہیں، بلکہ علم، عدل اور اخلاق سے غالب تھے۔
جب تک ہم اُن اوصاف کو اپنے اندر دوبارہ پیدا نہیں کرتے، ہم محض تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بے وزن رہیں گے۔ آج ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک موجود ہیں، مگر اجتماعی طور پر ہماری حیثیت ایک کمزور آواز سے زیادہ نہیں۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ غزہ اور دیگر خطوں میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے، اور امت صرف بیانات تک محدود رہ جاتی ہے۔

اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم پھر سے اپنی اصل کی طرف لوٹیں، اپنے نوجوانوں میں شعور، علم، ایمان اور اتحاد پیدا کریں۔ جب مسلمان اپنے کردار، اپنی دیانت، اپنے علم اور اپنے ایمان سے مضبوط ہوں گے تو دنیا کو رہنمائی دینے والی امت دوبارہ وہی بنے گی جو کبھی تھی روشنی دینے والی، عدل قائم کرنے والی، انسانیت کی خدمت کرنے والی۔

تقریب کے اختتام پر نمایاں کارکردگی دکھانے والے بچوں میں انعامات اور اسناد تقسیم کی گئیں۔شرکاء نے اس بامقصد تقریب کے انعقاد پر یوتھ مسلم سوسائٹی اسپین کے تمام اراکین کو سراہا۔