سیلفی کے دور نے انسانی خدمت کو خودنمائی کی طرف دھکیل دیا

تحریر۔بورخا تیران ۔۔ترجمہ وترتیب ڈاکٹرقمرفاروق
سیلفی” کے دور کی ابلاغی حکمتِ عملی نے انسانی خدمت کے عمل کو حساسیت سے خودنمائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
- وائرل ہونے کے جنون میں پرورش پانے والے لوگ جنہیں خود کو بیچنے کی لت لگ چکی ہے
- المیے کی غیرانسانی تصویرکشی
وائرل کلچر کے اس دور نے ہمیں مسلسل “میں، میں” کے تصور کا عادی بنا دیا ہے۔ ہم نے ایسی ابلاغی عادتیں اپنا لی ہیں جن میں سب سے پہلے خود کو پیش کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ سیلفی ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے آپ کہانی کے مرکزی کردار نہ ہوں، یا آپ کا مسئلہ اس دکھ سے کہیں کم ہو جسے آپ اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ رجحان ہمیں اُن “انفلوئنسرز” میں نظر آتا ہے جو کسی خراجِ عقیدت والے دستاویزی پروگرام میں شامل ہو کر صرف اپنے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ ایسی سوشل میڈیا دنیا میں پلے بڑھے ہیں جہاں گفتگو ہمیشہ “میں” سے شروع ہوتی ہے، اور شاید اسی لیے وہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی میں ہم اکثر مرکزی کردار نہیں بلکہ محض معاون کردار ہوتے ہیں۔
مگر اب یہ رجحان تفریح سے نکل کر سنجیدہ میدانوں میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ اسپین میں فلوٹیلا کی حالیہ کارروائی کی “پیشکش” نے بھی اسی اثر کو ظاہر کیا ہے۔ اس کی ابلاغی حکمتِ عملی ہماری سماج میں الٹی پڑی ہے۔ ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ ان کی توجہ اپنے سفر، اپنی گرفتاریوں اور اپنے “ہیرو ازم” پر زیادہ رہی، بجائے اس کے کہ وہ غزہ میں ہونے والی 60 ہزار سے زیادہ اموات اور تباہی پر روشنی ڈالتے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم لوگوں کو دیکھ کر ہمیشہ دل متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر قدم اٹھائیں۔ فلوٹیلا نے یقیناً ہمت دکھائی۔ مگر ساتھ ہی ان کی ابلاغی حکمتِ عملی میں کئی خامیاں نمایاں ہوئیں۔ وہ ویڈیوز جنہوں نے توجہ حاصل کی، یہ تاثر دے رہی تھیں جیسے ان کا مقصد فلسطین پہنچ کر تعاون کرنا نہیں بلکہ گرفتاری کرا کر “ہیرو” بننا تھا۔ سوشل میڈیا پر اُن کی پوسٹس میں انسانی امداد اور عملی منصوبے کے بجائے چہروں کی نمائش زیادہ نظر آئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ابلاغی غلطی شروع ہوئی: فلوٹیلا ایک “ریئلٹی شو” بن گئی جس میں سفید فام نجات دہندے مرکز میں تھے، اور اصل متاثرین پس منظر میں گم۔
اس سب کے باوجود، فلوٹیلا کے ارکان کی نیتوں پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کوشش نے دنیا بھر میں توجہ دلانے اور قتلِ عام کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال بھی ہے کہ ہم سب کس طرح وائرل کلچر کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ بلاشبہ سرگرمیوں کو نمایاں کرنا ضروری ہے، مگر جب مقصد صرف ذاتی شہرت یا تصویری مقبولیت بن جائے تو اس کا اثر الٹا پڑتا ہے۔ ایسے تالیاں بجاتے مناظر اُن لوگوں کی محنت کو دھندلا دیتے ہیں جو انسانی خدمت، طب، یا صحافت کے میدان میں خاموشی سے کام کر رہے ہیں، بغیر کسی تمغے یا کیمرے کے۔
اکثر یہ محسوس ہوا کہ فلوٹیلا کے کچھ اراکین نے ٹی وی اسٹوڈیوز میں اپنے “ہمیں گرفتار کیا گیا” جیسے جملوں پر زیادہ زور دیا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے انسانی مشن کی وضاحت کرتے۔
یہ معاملہ یقیناً پیچیدہ ہے۔ مگر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس حد تک خودمرکز ہو چکے ہیں کہ دوسروں کی مدد کے دعوے میں بھی اپنی نمائش کر بیٹھتے ہیں۔ جب ہم انسانی حقوق جیسے آفاقی اصولوں کو بھی ٹی وی مباحثوں میں تماشا بنا دیتے ہیں، تو شاید ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ غلطی کہاں ہے۔
گریٹا تھنبرگ نے اس بارے میں بالکل درست نشاندہی کی ہے:
“میری ذاتی حالت اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔ لاکھوں لوگ آگ کے نیچے پھنسے ہیں، ان کے پاس پانی، بجلی یا امید کچھ نہیں۔ یہی اصل خبر ہے۔”