ریاستی طاقت، سیاست اور خون: پاکستان کی چار دہائیوں کے سانحات کا تسلسل۔۔تحریر: ڈاکٹر قمر فاروق

IMG_1548

پاکستان کی تاریخ میں سیاسی اور مذہبی اختلاف کبھی صرف نظریاتی نہیں رہا، اکثر یہ اختلاف خون میں نہلایا گیا۔ 1987 سے 2025 تک کے چند بڑے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک تشویشناک پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ 

دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ ان تمام واقعات کے دوران یا تو مسلم لیگ (مسلم لیگ ن) براہِ راست اقتدار میں تھی یا اقتدار کے ساتھ تھی 

قلعہ گوجر سنگھ کا دھماکہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ساتھیوں کی شہادت (1987)

23 مارچ 1987 کو لاہور کے قلعہ گوجر سنگھ میں اہلِ حدیث رہنما علامہ احسان الٰہی ظہیر جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک زوردار دھماکے نے فضا چیر دی۔اس حملے میں علامہ شدید زخمی ہوئے اور چند دن بعد سعودی عرب کے شہرریاض کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔اور جنت البقیع قبرستان میں تدفین کی گئی

یہ سانحہ اُس زمانے کے مذہبی تناؤ اور فرقہ وارانہ تقسیم کا نقطۂ آغاز تھا۔اس وقت ملک پر جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت تھی، جبکہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاں نواز شریف تھے۔ نواز شریف اس وقت  ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے سیاسی شاگرد کے طور پر ابھر رہے تھے۔

یوں اس سانحے کے پس منظر میں وہ سیاسی فضا تھی جس میں مذہبی تنظیموں کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی، اور یہی پالیسی آنے والے عشروں کی بنیاد بن گئی۔

1992: مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن

جون 1992 میں کراچی میں “کلین اپ آپریشن” کے نام سے جو کارروائی شروع ہوئی، اُس نے شہری سندھ کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔

اس وقت وفاق میں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، اور یہ آپریشن بظاہر “جرائم پیشہ عناصر” کے خلاف تھا، مگر اصل نشانہ مہاجر قومی موومنٹ (MQM) بنی۔سینکڑوں افراد مارے گئے، ہزاروں گرفتار ہوئے، اور شہری علاقوں میں خوف و بےاعتمادی کی فضا چھا گئی۔

یہ پہلا موقع تھا جب نواز شریف حکومت پر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف طاقت کے استعمال کا الزام لگا۔

1998–1999: فرقہ وارانہ تصادم کی آگ

نواز شریف کی دوسری مدتِ اقتدار کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے خطرناک صورت اختیار کر لی۔سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے درمیان تصادم نے لاہور، جھنگ، کراچی اور ملتان کو لرزا کر رکھ دیا۔

امام بارگاہوں، مساجد اور مذہبی جلوسوں پر حملے عام ہوئے۔لاہور میں حافظِ قرآن طلبہ بھی اس شدت پسندی کی بھینٹ چڑھے۔

ریاست کا رویہ اس پورے عرصے میں خاموش یا جانبدارانہ رہا۔حکومت داخلی بحرانوں میں الجھی رہی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت ایک “نئے معمول” میں تبدیل ہو گئی۔

2014سانحہ ماڈل ٹاؤن،خون میں ڈوبی انتظامیہ 

17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے منہاج القرآن کے مرکز کے سامنے بیریئر ہٹانے کی کارروائی کے دوران فائرنگ کی۔چند گھنٹوں میں 14 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وفاق میں میاں نواز شریف اور پنجاب میں میاں شہباز شریف برسراقتدار تھے۔

اس سانحے نے یہ حقیقت آشکار کی کہ جمہوری حکومتوں میں بھی ریاستی طاقت وہی کردار ادا کرتی ہے جو کبھی آمریت میں کرتی تھی۔

تاہم افسوس کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود کسی اعلیٰ ذمہ دار کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔

3 نومبر 2022، تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر حملہ

وزیرآباد کے قریب تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر فائرنگ نے ملکی سیاست کو ہلا دیا۔سابق وزیراعظم عمران خان زخمی ہوئے، ایک کارکن جاں بحق ہوا۔

اس وقت وفاقی حکومت شہباز شریف کی قیادت میں تھی، اور یہ واقعہ سیاسی انتقام اور عدم برداشت کی علامت بن گیا۔

24 نومبر 2024، پی ٹی آئی احتجاج پر فائرنگ

24 نومبر 2024 کو لاہور اور راولپنڈی میں تحریک انصاف کے کارکن انتخابی تاخیر اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی، متعدد افراد مارے گئے۔اگرچہ اُس وقت نگران سیٹ اپ تھا، لیکن انتظامی اثر و رسوخ مسلم لیگ ن کے اتحادی حلقوں کے ہاتھ میں تھا۔

یہ واقعہ ایک بار پھر اس تلخ روایت کو دہراتا ہے کہ جب احتجاج مسلم لیگ کے خلاف ہو، تو فائرنگ، گرفتاری اور طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کیا جاتا۔

12 اکتوبر 2025، تحریکِ لبیک پاکستان پر گولیاں

12 اکتوبر 2025 کو مختلف شہروں میں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ سے کئی کارکن جاں بحق ہوئے۔

وفاق میں اس وقت اتحادی حکومت قائم ہے جس میں مسلم لیگ ن کا مرکزی کردار ہے۔

یہ سانحہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال میں سیاسی چہرے بدل جاتے ہیں، مگر طریقہ نہیں۔

ایک طویل تسلسل: مسلم لیگ کا اقتدار اور طاقت کا استعمال

اگر ان تمام سانحات کو ایک جدول میں دیکھا جائے تو ایک نمایاں ربط سامنے آتا ہے ،تقریباً ہر بڑے واقعے کے دوران مسلم لیگ براہِ راست اقتدار میں یا اثر کے دائرے میں رہی،اور یہ بات عام ذہن میں بھی پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مسلم لیگ ن دائیں بازو کی جماعت اور مذہبی حلقوں میں پسند کی جاتی ہے بلکہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ مذہب پسند ہونے کا تاثر دیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم پاکستان کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں مذہبی جماعتوں کی بیخ کنی میں اسی مذہب پسند جماعت کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اختلاف کو دبانے کے لیے بندوق استعمال کی گئی، اس نے مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ مزید خون کو دعوت دی۔

ریاست اگر انصاف سے خالی ہو جائے تو اس کے ہاتھ میں بندوق محض ظلم کا آلہ بن جاتی ہے۔

پاکستان کو اب ایک نئی روایت کی ضرورت ہے ،طاقت کے مقابلے میں انصاف کی روایت، اور اختلاف کے جواب میں برداشت کی روایت۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے