ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچز کا فلسطین کے لیے کردار،کامیابیاں اور حدود۔۔تحریر۔ڈاکٹرقمرفاروق

سانچز کا موقف اور اقدامات
ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچز نے فلسطینوں کے معاملے میں ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے، جو کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے
مئی 2024 میں اسپین نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ تو سانچز نے کہا کہ یہ تسلیم نہ تاریخاً صرف عدل کا معاملہ ہے بلکہ امن کی راہ میں لازم قدم ہے۔
سانچز کی حکومت نے بارہا بیان کیا کہ فلسطینی ریاست ہونا چاہیے جو مشرقی یروشلیم، غزہ اور مغربی کنارے (West Bank) کے ساتھ متصل ہو، اور فلسطینی حکومت کی قانونی اتھارٹی کے تحت ہو۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قانون، حقوقِ انسان اور انسانی امداد کی رسائی کے اصول ان کے موقف کا حصہ ہیں۔
اسپین نے فلسطینیوں کو براہِ راست امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، اور ریاست فلسطین کے تسلیم کے بعد اسپینی امداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طور پر، پہلی بین الحکومتی میٹنگ (Spain-Palestine intergovernmental meeting) میں اسپین نے آئندہ دو سالوں میں کم از کم 75 ملین یورو کی امداد کا عہد کیا۔
سانچز کی حکومت نے اسرائیل کے کچھ اقدامات، جیسے مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری (settlements)، انسانی حقوق کی پامالی، امدادی رسائی کی رکاوٹ، وغیرہ، کی شدید مذمت کی ہے۔
اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت (ICJ) اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پورا کرے۔
سانچز نے یورپی یونین میں فلسطین کی ریاست کے تسلیم کے حامی ممالک کی صف میں اسپین کا کردار اجاگر کیا ہے، اور یہ کہ یورپ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات، اور انسانی حقوق، کی روشنی میں اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔ اس نے ایک “بین الاقوامی امن کانفرنس” (international peace conference) کے انعقاد کی بھی تجویز دی ہے تاکہ دونوں ریاستیں اور بین الاقوامی برادری مل کر امن کے لیے ٹھوس راہ تلاش کریں۔
کامیابیاں اور چیلنجز
سفارتی اقدام: فلسطین کو تسلیم کرنا ایک اہم سفارتی اقدام ہے۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے تشخص اور امید کو تقویت دیتا ہے بلکہ بین الاقوامی دباؤ کی صورت بھی بنتا ہے۔
انسانی حقوق کے امور میں آواز بلند کرنا: سانچز نے اکثر کہا ہے کہ ظلم، بے گھر ہونا، اور انسانی امداد کی رسائی کے مسائل پر “خاموشی نہیں ہوسکتی”۔
مالی تعاون اور اندرونی اصلاحات کا مطالبہ: امداد کے ساتھ یہ مطالبہ بھی ہے کہ فلسطینی اتھارٹیز داخلی اصلاحات کریں، شفافیت ہو، حکمرانی کا معیار بہتر ہو۔ یہ چیز فلسطینی قیادت کے اندر اعتبار پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
چیلنجز
توازن اور ردعمل کا دباؤ: سانچز کو اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کی ناپسندیدہ حرکتوں پر ردعمل دینا پڑتا ہے۔ اسرائیل سے تعلقات، مغربی حکمتِ عملی، یورپی یونین کے دیگر ارکان، عرب ممالک، اور ترکی جیسے ممالک کے مابین توازن برقرار رکھنا آسان نہیں۔
اندرونی اور یورپی اختلافات: یورپی یونین کے اندر ریاست فلسطین کی تسلیم، تجارتی یا فوجی تعلقات وغیرہ پر اختلافات ہیں۔ سب ممالک ایک موقف پر نہیں ہیں، اور بعض ممالک اسرائیل کے حامی ہیں یا کم از کم بہت محتاط رویہ رکھتے ہیں۔
حماس اور دیگر تنظیموں کا کردار: فلسطینیوں کی قیادت میں داخلی تقسیم ہے، خاص طور پر غزہ میں حماس کا کنٹرول، جو دو ریاستی حل کی حیثیت سے ایک مشکل عنصر ہے۔ سانچز نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس کے اثر و رسوخ کے تحت سیاسی حل مشکل سمجھتے ہیں۔
عملی نفاذ (Implementation) کا خلا: تسلیم، بیانات، اور مالی امداد سے کام شروع ہوتا ہے، مگر زمین پر سرحدوں کا تعین، یروشلیم کا حیثیتی سوال، پناہ گزینوں کا معاملہ، سیکیورٹی اور حکومت کی نگرانی کے سوالات، یہ سب ایسے پیچیدہ مسائل ہیں جن پر اتفاق کرنا لازمی ہے اور جنہیں حل کرنا آسان نہیں۔
کیا وہ دو ریاستی حل دنیا کو قریب لے آئیں گے؟
یہ تجزیہ ذرا محتاط انداز سے کرنا پڑے گا: ہاں، سانچز نے اہم اور اصولی اقدامات کیے ہیں، لیکن دو ریاستی حل کو حقیقت میں لانے کے لیے کئی مزید شرائط ہیں جن میں سانچز کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔
شرائطِ کامیابی
- بین الاقوامی اتحاد اور دباؤ
اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب ممالک، اسلامی تعاون تنظیم وغیرہ کا متحد اور مسلسل کردار ضروری ہے۔ سانچز کا یہ کردار اہم ہے مگر اکیلا وہ کم کر سکتا ہے۔ - مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کا رویہ
بستیوں (settlements) کی تعمیر، سرحدی رکاوٹیں، یروشلیم پر قابضیت، غیر قانونی حافلات کا تسلسل یہ وہ عوامل ہیں جو دو ریاستی حل کو پیچیدہ کرتے ہیں۔ اگر یہ بند نہ ہوں یا کم نہ ہوں، تو فلسطینی ریاست کی عملی حدود کم رہیں گی۔ - فلسطینی قیادت کی یک جہتی اور اصلاحات
اسرائیل کی سلامتی کے خدشات، فلسطینی انتظامی اور سیاسی تقسیم (غزہ / مغربی کنارے)، شفافیت اور انسانی حقوق کا احترام، یہ تمام عوامل ہیں جو بین الاقوامی برادری کی حمایت مضبوط یا کمزور کر سکتے ہیں۔ - معاہدہ اور مذاکرات کی تیاری
امن کانفرنس یا مذاکراتی میکانزم ہونا چاہیے جس میں سرحدوں، یروشلیم، پناہ گزینوں، سلامتی کے معاہدوں، اور انسانی حقوق کے تحفظ جیسے حساس معاملات پر بات چیت ہو۔ - معاشی اور انسانی عناصر کا پائیدار حل
امداد وقتی حد تک مؤثر ہے، لیکن انفراسٹرکچر، پانی، بجلی، تعلیم، روزگار جیسے بنیادی شعبے اگر بہتر نہ ہوں، تو امن کی بنیاد کمزور رہتی ہے۔
حدود اور ممکنہ رکاوٹیں
بعض عالمی طاقتیں/ریاستیں جو اسرائیل کے قریب ہیں یا اس کی حمایت کرتی ہیں، دو ریاستی حل کی صورت حال میں اسرائيل کی سلامتی اور داخلی پالیسی کو بنیاد بنا کر ردعمل دے سکتی ہیں یا دباؤ نہیں سہیں گی۔
عسکری یا غیر ریاستی گروپس کی کاروائیاں (مثلاً حماس) امن معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اگر وہ مذاکرات یا امن کے اصول تسلیم نہ کریں۔
یروشلیم کا معاملہ، پناہ گزینوں کا حل، سرحدوں کا تعین، اور سیکیورٹی معاہدے وہ آخری اور سب سے زیادہ مشکل مسائل ہیں۔
پیدرو سانچز نے فلسطین کے مسئلے پر ایک اخلاقی اور اصولی پالیسی اختیار کی ہے، جس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا، دو ریاستی حل کی حمایت، انسانی امداد، اور بین الاقوامی تعاون کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ اقدامات اہم ہیں، اور اگر دوسرے ممالک بھی ان معاملات پر اسی طرح کا دباؤ بنائیں، تو دو ریاستی حل ممکن ہے کہ ایک عملی رخ اختیار کرے۔
لیکن یہ کہنا کہ سانچز خود اکیلا دنیا کو دو ریاستی حل پر لے آئے گا، تھوڑا مبالغہ ہو گا۔ امن کے لیے بہت سی پیچیدگیاں ہیں، بہت سے فریق ہیں، اور بعض معاملات ایسے ہیں جن میں صبر، وقت اور مذاکرات درکار ہیں۔