سپین والو، ڈھول بجاؤتحریر:محموداصغرچودھری

552860222_10235223820468864_3756109295974256064_n

سپین میں مقیم شہباز احمد استنبول میں 22 دن تک زندگی اور موت کی لڑائی لڑتا رہا لیکن پاکستان کا کوئی ادارہ، کوئی سفارت خانہ اس کی مدد کو نہیں پہنچا۔ بائیس دن تک وہ ٹھنڈی کرسیاں اس کا بستر رہیں، ائیرپورٹ کی چمکتی لائٹوں کے نیچے اس کی آنکھوں میں اندھیرا اترتا گیا، اور ریاست جس کی خدمت کے لیے وہ برسوں زرمبادلہ بھیجتا رہا، اس کی تلاش میں کبھی نہیں نکلی۔وہ کوئی ڈنکی لگا کر آنے والا غیر قانونی تارکِ وطن نہیں تھا ۔ اس کے پاس سپین کا ریزیڈنس کارڈ بھی تھا۔ مورخہ 21 اکتوبر کو وہ لاہور سے ترکِش ائیر لائن سے فلائی کرکے استنبول پہنچا۔ اس کی اگلی فلائٹ ویلینسیا کے لیے تھی جو کسی وجہ سے کینسل ہوگئی۔ ترکِش ائیر لائن نے تمام ہسپانوی شہریوں کو تو ہوٹل بھی دے دیا اور وہاں سے لے بھی گئے، لیکن اس پاکستانی کو وہیں تنہا چھوڑ دیا۔ نہ اسے انگریزی آتی تھی، نہ وہ سمجھ سکا، نہ وہ سمجھا سکا کہ اسے کیا کرنا ہے۔فون بھی اس نے سستا پاکستانی رکھا ہوا تھا جس کا چارجر پورے ائیرپورٹ پر نہیں مل رہا تھا۔ پیسے گھر والوں نے فلائی کرنے سے پہلے ہی لے لیے ہوں گے کہ سپین جا کر تو ویسے بھی درختوں سے اتار لو گے۔ائیرپورٹ پر موجود ٹھنڈی کرسیاں اور بنچ ہی اس کا مسکن بن گیا۔ اس کا کسی سے رابطہ نہیں تھا۔گھر میں کہرام بپا ہوگیا۔ شہباز زندہ ہے یا نہیں اس کا بھی پتہ نہیں تھا۔ رشتہ دار پرسہ دینے پہنچتے رہے، لیکن شہباز کا پتہ کیسے کرانا ہے — گاؤں میں کون جانے۔ انہوں نے وفاقی وزیر اوورسیز کے سیکرٹری سے رابطہ کیا۔ اوورسیز کے اداروں میں تحریری درخواستیں جمع کرائیں۔ دوستوں نے سپین میں موجود پاکستان ایمبیسی سے بھی رابطہ کیا کہ ہماری مدد کریں۔ہر جانب یہی کہا جاتا رہا۔ہوجاتا ہے، کر لیتے ہیں۔ انہی آنی جانیوں میں ائیرپورٹ کی انتظارگاہ میں اس کی حالت مرنے والی ہوگئی۔ سردی کا مقابلہ تو کیا جا سکتا ہے، بھوک کا کیسے کریں؟ خیر، ڈبوں وغیرہ سے لوگوں کا چھوڑا ہوا اٹھانے کی کوشش کی۔ صفائی والی عورتوں نے دیکھ لیا تو کسی نے کچھ بریڈ وغیرہ دینا شروع کر دی۔ اللہ کسی کو بھولا یا کم علم بھی نہ رکھے۔ کاؤنٹر پر باربار جاتا رہا لیکن نہ انہیں سمجھا سکا نہ وہ سمجھ سکتے تھے کہ معاملہ کیا ہے۔وہ 21 دن تک ریاست کے انتظار میں رہا کہ ریاست اس کا پتہ لگالے گی۔ لیکن کسی نے نہ اس سے رابطہ کیا نہ اس کے والدین سے رابطہ کیا۔ نہ دلاسہ دیا، نہ پتہ کروایا، نہ کوئی آرڈر جاری ہوا اور نہ ہی کوئی فون کھڑکا۔ کیوں؟ کیونکہ شہباز ایک عام پاکستانی ہے اور ایک عام پاکستانی کو تو پاکستان میں کوئی اوقات نہیں؛ کسی دوسرے ملک میں تو کیا ہوتی۔وہ اکیلا بنچ پر لیٹے سوچتا رہا ۔شاید کوئی آئے، شاید کوئی تلاش کرے، شاید کوئی پہچان لے۔ مگر کوئی نہ آیا۔ نہ استنبول میں پاکستانی سفارت خانہ، نہ سپین میں۔ نہ کسی نے اس کی ماں کی آہیں سنی، نہ ہی کسی کو یہ فکر تھی کہ اس کے بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ بائیس دن بعد بالآخر ایک دوست سے رابطہ ہوا، نیا ٹکٹ بنا، کچھ لوگوں نے مدد کی۔ جب دوست ائیرپورٹ پہنچے تو شہباز کو پہچاننا مشکل ہوگیا۔ بھوک نے چہرے سے گوشت چوس لیا تھا، آنکھوں سے روشنی رخصت ہو چکی تھی۔ گیارہ نومبر کو وہ سپین پہنچ تو گیا، مگر جیسے روح جسم سے نکل کر لوٹی ہو خالی، شکستہ، تھکا ہوا۔ہم اوورسیز اتنے غلامی پسند ہیں کہ جب بھی سپین سمیت کسی بھی یورپی ملک میں کوئی نیا پاکستانی سفیر آتا ہے تو اس کے قدموں میں یوں بچھ بچھ جاتا ہے کہ جیسے وہ ہمارا ان داتا ہو اور ہم اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے غلام۔ اس کی تعریفوں میں اس طرح کے قلابے ملاتے ہیں کہ خود اسے بھی اس کا بھی ادراک نہیں ہوتا۔وزیروں مشیروں کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ جب وہ یورپ آتے ہیں تو انہیں ہم یوں سر پر بٹھاتے ہیں کہ وہ اپنا استقبال دیکھ کر اسی وقت سمجھ جاتا ہے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں سے بڑا بے وقوف اور کوئی نہیں ہے۔یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا۔ سپین میں موجود پاکستانی ایمبیسی میں اپنے آفس میں ہمارے ہی ٹیکسوں سے ملی ہوئی کرسی کی گدی گرم کرنے والا کوئی بھی آفیسر صرف ایک فون استنبول میں اپنے کسی ہم منصب کو کر دیتا تو استنبول میں پاکستانی ایمبیسی میں موجود ایسا ہی کوئی دوسرا چاہتا تو شہباز کا پتہ لگانا دو منٹ کا کام تھا۔ ظاہری سی بات ہے کہ شہباز اگر ائیرپورٹ سے نکلا ہی نہیں تو اسے ڈھونڈنے میں کتنے سیکنڈ لگ سکتے تھے؟لیکن نہیں، ہماری بیوروکریسی کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ خط لکھیں اور پھر وہ خط یہاں سے وہاں گھومتا رہے ۔ یہی ہے ہمارا سسٹم۔ اسی کو قبول کریں اور کسی نئے آنے والے سفیر کے آگے بھنگڑے ڈال کر اس کا استقبال کریں دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ ہوجائے، زلزلہ آجائے یا قدرتی آفات ہو جائیں، اسی دن آپ ٹی وی لگا کر دیکھ لیجیے گا: سپین کا وزیر خارجہ چند منٹ کے اندر آپ کو بتادے گا کہ اس ملک میں کتنے ہسپانوی شہری اس وقت موجود تھے اور کتنے محفوظ ہیں۔ کاش ہمارے سفیر بھی ان سے سیکھ لیں کہ وطن سے باہر پاکستانی اس کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔سپین میں اس وقت کتنی ہی پاکستانی ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز اور صحافتی تنظیمیں ہیں ۔ میرا ان سے مطالبہ ہے کہ وہ شہباز احمد سے رابطہ کریں، اس کی سٹوری سنیں اور سپین میں موجود پاکستانی ایمبیسی سے اس متعلق سوال کریں کہ انہوں نے 22 دن تک کیوں ایک شخص کو بھوک اور سردی سے تنہا لڑنے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔دوسری جانب، اگر سپین میں واقعی کوئی فیڈریشن ہے تو اس کا کام بنتا ہے کہ وہ ترکِش ائیر لائن پر اس زیادتی کا کیس کر دے اور اسے ہر ممکن ہرجانہ دلوائے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو اگلے ثقافتی میلے میں جب کسی سفارت کار کا استقبال کریں تو ڈھول کے ساتھ تھوڑا بھنگڑا بھی ڈال لیں

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے