سیاق و سباق سے ہٹ کر ویڈیوز، کرسمس بازاروں کے پس منظر میں خوف اور اسلاموفوبیا پھیلا رہے ہیں
Screenshot
بارسلونا(دوست مانیٹرنگ ڈیسک)یورپ اور بالخصوص کاتالونیا میں کرسمس کی آمد کے ساتھ ہی کرسمس مارکیٹس کا آغاز ہو چکا ہے، تاہم اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک منظم بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے جس کا مقصد خوف پیدا کرنا اور یورپی معاشروں میں تقسیم کو ہوا دینا ہے۔ اس بیانیے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یورپ میں مسلم کمیونٹیز منظم انداز میں کرسمس بازاروں پر حملے کر رہی ہیں یا انہیں “قبضے” میں لے رہی ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ دعوے گمراہ کن اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی ویڈیوز پر مبنی ہیں۔
ٹیلیگرام، ایکس، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر ایسی ویڈیوز لاکھوں بار دیکھی جا چکی ہیں جو حقیقی دہشت گردی کے خدشات اور الرٹ کی فضا کا فائدہ اٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ مسلمان یورپی اور مسیحی روایات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرسمس بازاروں پر آخری بڑے اسلام پسند حملے 2016 اور 2018 میں ہوئے تھے، وہ بھی اس وقت جب داعش اپنے عروج پر تھی۔

یہ جعلی بیانیہ نہ تو اتفاقی ہے اور نہ ہی خود بخود پھیلا ہے، بلکہ مخصوص اکاؤنٹس کے ذریعے ایک ہی قسم کی ویڈیوز اور پیغامات مختلف زبانوں میں یورپ بھر میں گردش کرائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھانا اور معاشرتی تقسیم کو گہرا کرنا ہے۔
برسلز کا کرسمس بازار
سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو برسلز کے کرسمس بازار کے سامنے فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے کی ہے۔ یہ مظاہرہ واقعی 28 نومبر کو بازار کے افتتاح کے دن ہوا، مگر اسے کرسمس بازار کے خلاف یا اس کے بائیکاٹ کے طور پر منظم نہیں کیا گیا تھا۔ یہ دراصل تنظیم “اہرار فلسطین” کی جانب سے گزشتہ دو برسوں سے ہر جمعے کو برسلز اسٹاک ایکسچینج کے سامنے ہونے والا معمول کا احتجاج تھا، جو اتفاقاً اسی دن بازار کے افتتاح کے ساتھ ٹکرا گیا۔
البتہ برسلز میں ایک الگ واقعہ ضرور پیش آیا جہاں شہر کے مرکزی چرچ میں نصب کرسمس کے منظر (پریسبے) پر “فری فلسطین” کی تحریر کی گئی اور حضرت عیسیٰؑ کے مجسمے کو ہٹا دیا گیا۔ اس واقعے کے ذمہ دار اور محرکات تاحال معلوم نہیں ہو سکے، جبکہ حکام نے تحریر مٹا کر مجسمہ دوبارہ نصب کر دیا ہے۔
ویانا میں مظاہرہ
اسی طرح ویانا میں بھی ایک فلسطین نواز مظاہرے کی ویڈیو کو یہ کہہ کر پھیلایا گیا کہ کرسمس بازار میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مظاہرہ 28 نومبر کو اپنے معمول کے روٹ پر تھا اور راستے میں Rathausplatz کے کرسمس بازار کے سامنے سے گزرا۔ پولیس کے مطابق نہ کوئی جہادی نعرے لگے اور نہ ہی کوئی سنگین واقعہ پیش آیا۔

شامی پناہ گزینوں کی تقریبات
بعض شہروں جیسے اسٹاک ہوم، ایسن، اشٹٹگارٹ اور برلن میں شامی پناہ گزینوں کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے پر کی گئی تقریبات کی پرانی یا غلط ویڈیوز بھی اس بیانیے کو تقویت دینے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں، حالانکہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کا کرسمس بازاروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
دیگر جھوٹی خبریں
لندن کے میئر صادق خان پر کرسمس کی سجاوٹ کم کرنے کے الزامات بھی مکمل طور پر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں، جیسا کہ بی بی سی ویریفائی نے تصدیق کی ہے۔ اسی طرح فرانس میں گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں کرسمس کے درخت گرانے کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، جبکہ حقیقت میں ایک منظر آذربائیجان میں تیز ہوا کے باعث درخت گرنے کا تھا اور دوسرا 2018 میں پیرس میں یلو ویسٹ تحریک کے دوران فلمایا گیا تھا۔

برطانیہ میں دائیں بازو کے شدت پسند رہنما ٹومی رابنسن نے گواڈیلوپ میں ایک گاڑی کے حادثے کو کرسمس بازار پر دہشت گرد حملہ قرار دیا، حالانکہ فرانسیسی ذرائع کے مطابق یہ ایک نشے میں دھت ڈرائیور کا حادثہ تھا جس میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
حقیقی خطرہ، مگر جھوٹا بیانیہ
ماہرین کے مطابق ماضی میں کرسمس بازاروں پر ہونے والے حقیقی حملوں کو بنیاد بنا کر آج جھوٹے دعوے پھیلائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر میگڈبرگ میں ہونے والے ایک حملے کا ذکر کیا جاتا ہے، حالانکہ اس حملے کی مذہبی نہیں بلکہ انتہائی دائیں بازو کی انتہاپسندانہ وجوہات تھیں۔
داعش کی 2019 کے بعد فوجی شکست کے بعد یورپ میں اسلام پسند دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور حالیہ برسوں میں زیادہ تر انفرادی حملے چاقوؤں سے کیے گئے ہیں۔ کاتالونیا میں پولیس نے کرسمس کے موقع پر سیکیورٹی بڑھا دی ہے، تاہم اس کا مقصد زیادہ تر چوری اور جیب تراشی جیسے جرائم کی روک تھام ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والا یہ جھوٹا بیانیہ نہ صرف حقیقت کو مسخ کرتا ہے بلکہ یورپی معاشروں میں نفرت اور تقسیم کو بھی فروغ دیتا ہے۔