لیون میں بے گھر کم عمر مہاجرین کی حالتِ زار، چرچ میں رات گزارنے پر مجبور
لیون (فرانس) مالی سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ ابراہیم نے سینٹ پولی کارپ چرچ میں قیام کے دوران بتایا کہ یہ جگہ مثالی تو نہیں، مگر کھلے آسمان تلے سونے سے کہیں بہتر ہے۔ لیون میں درجنوں بے گھر مہاجرین ہر رات اس چرچ میں پناہ لیتے ہیں تاکہ سردی سے بچ سکیں۔

چرچ انتظامیہ نے انہیں گزشتہ تقریباً تین ہفتوں سے رات گزارنے کی اجازت دی ہوئی ہے، تاہم سخت شرائط کے ساتھ۔ مہاجرین صرف شام چھ بجے کے بعد اندر داخل ہو سکتے ہیں، چرچ کے اندر کھانے کی اجازت نہیں، اور ہر صبح نو بجے سے پہلے صفائی کر کے جگہ خالی کرنا لازمی ہے۔
یہ افراد قریبی کیمپ سے آتے ہیں، جس کی آخری تصویر میں جھلک دکھائی گئی ہے۔ ’جارڈین دو شارتغو‘ پارک میں لگے اس کیمپ میں تقریباً 250 مہاجرین خیموں میں رہ رہے ہیں، جن میں سے بعض جنوری سے وہاں موجود ہیں۔

گنی سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ لائے نے بتایا کہ کیمپ میں ہر طرف چوہے ہیں، خیمہ کھلا چھوڑنا ممکن نہیں کیونکہ چوہے اندر آ جاتے ہیں۔ بارش کے دوران صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے، پانی ہر طرف بہنے لگتا ہے، خیمے نم ہو جاتے ہیں اور لوگ کیچڑ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک اور نوجوان نے سوال کیا کہ ایسے حالات میں پڑھائی کیسے ممکن ہے۔
کیمپ میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی فرانسیسی ریاست کی جانب سے نابالغ تسلیم کیے جانے کی درخواست مسترد ہو چکی ہے، جس کے بعد انہوں نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔

فرانس میں ایسے پناہ گزین جو نابالغ ہونے کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہیں، انتظامی خلا کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں نہ تو نابالغوں کے لیے ریاستی سہولتیں ملتی ہیں اور نہ ہی بالغوں کے لیے۔ نتیجتاً بہت سے افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، جیسا کہ لیون کے اس کیمپ میں دیکھا جا رہا ہے۔
لیون میں ملاقات کرنے والے دو نوجوانوں نے بتایا کہ وہ بالترتیب چار اور سات ماہ سے فیصلے کے منتظر ہیں، مگر اب تک جج نے ان کے کیسز پر کوئی حکم نہیں دیا۔

کروآ روس کے علاقے میں مہاجرین کی مدد کرنے والے مقامی گروپ ’سوتیاں/مہاجرین‘ کے ایک رکن کے مطابق، اپیل کرنے والے نوجوانوں میں سے تقریباً تین چوتھائی کو بالآخر نابالغ تسلیم کر لیا جاتا ہے۔