Basta ya… اب بس!۔۔تحریر۔خالد شہباز چوہان

کب تک؟ آخر کب تک ہم معصوم جانوں کے ضیاع پر صرف بیانات دے کر خاموش ہو جائیں گے؟ کب تک کچھ مخصوص عناصر آ کر دہشت پھیلائیں گے، اور ہم صرف مذمتی جملے دہراتے رہیں گے؟ “ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے” — مگر وہ آہنی ہاتھ کہاں ہیں؟ “ہم چن چن کر ماریں گے” — مگر وہ چننے والے کہاں چھپے بیٹھے ہیں؟
ہم ہر واقعے کے بعد ایک ہی اسکرپٹ دہراتے ہیں — حکومت، ادارے، سیاستدان سب ایک جیسی زبان بولتے ہیں، مگر عمل ندارد۔ قومیں بیانات سے نہیں بچتیں، عمل سے محفوظ ہوتی ہیں۔ بمبئی میں حملہ ہو، یا کسی اور ملک میں — وہ قومیں اٹھتی ہیں، جواب دیتی ہیں، اپنی زمین پر دوبارہ وہ واقعہ نہیں ہونے دیتیں۔ مگر ہم؟ ہمارے ملک میں ایک حملہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا ہو جاتا ہے۔ ہم صرف ثبوت تلاش کرتے رہ جاتے ہیں اور وہ حملہ آور ہمیں زخمی کر کے، روند کر، واپس چلے جاتے ہیں۔
آج پھر معصوم بچے نشانہ بنے۔ آج پھر ایک ماں نے اپنے لال کو کھویا۔ اور آج پھر ہم سو رہے ہیں — لاشیں اٹھانے کے بعد صرف افسوس، غصہ، اور چند دن کی گرمجوشی۔ پھر خاموشی۔
آخر وہ دن کب آئے گا جب یہ سننے کو ملے گا کہ اگر آئندہ ایسا کوئی واقعہ ہوا تو اس علاقے کے تمام ذمہ دار ادارے، افراد، اور قیادت جواب دہ ہوں گے؟ کب ہم یہ سنیں گے کہ غفلت برداشت نہیں کی جائے گی؟ کہ اب صرف دہشت گرد نہیں، بلکہ ان کے سہولت کار، غفلت برتنے والے، اور بے حس لوگ بھی کٹہرے میں آئیں گے؟
ہمیں اب کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہمیں بطور قوم ایک واضح پیغام دینا ہوگا — Basta ya! — اب بس!
ہمیں اب جذباتی بیانات سے نکل کر عملی اقدامات لینے ہوں گے۔ قانون کو حرکت میں لانا ہوگا۔ اداروں کو جواب دہ بنانا ہوگا۔ یہ ملک مزید لاشیں برداشت نہیں کر سکتا۔
یاد رکھیں — جس دن قوم نے فیصلہ کر لیا، اس دن دنیا کی کوئی طاقت، کوئی بزدل دہشت گرد ہمیں جھکا نہیں سکے گا۔ اس دن ہم حقیقی آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔لیکن اس کے لیے ہمیں جاگنا ہوگا۔ اب نہیں تو کبھی نہیں۔