غزہ جنگ بندی کا کریڈٹ کس کو؟

تحریر: ڈاکٹر قمر فاروق
غزہ کی زمین برسوں سے خون، آنسو اور راکھ کی کہانی سناتی رہی ہے۔ مگر اکتوبر 2025 میں بالآخر وہ لمحہ آیا جس کی دنیا کو دیر سے انتظار تھاجنگ بندی۔ یہ معاہدہ اسرائیل اور حماس کے درمیان پہلا مرحلہ ہے، جس میں قیدیوں کی رہائی اور جزوی انخلا کی شقیں شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کامیابی یا کم از کم اس وقفے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟
یہ جنگ صرف عسکری تصادم نہیں تھی، بلکہ ایک انسانی المیہ بن چکی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق لاکھوں بے گھر، ہزاروں ہلاک، اور بنیادی سہولتوں سے محروم لوگ ایک ایسے بحران میں تھے جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ مسلسل دباؤ، احتجاج، میڈیا کوریج اور سفارتی کوششوں نے فریقین کو بالآخر مذاکرات کی میز تک لانے میں کردار ادا کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد کہا کہ یہ معاہدہ “ہماری امن کوششوں” کا نتیجہ ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ (Reuters, Al Jazeera, ABC News) کے مطابق واشنگٹن نے اسرائیل پر نمایاں دباؤ ڈالا کہ وہ کم از کم انسانی بنیادوں پر جنگ روکنے پر آمادہ ہو۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے مقاصد صرف انسانی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہیں،انتخابات سے قبل ایک “کامیابی” پیش کرنا۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی حد تک امریکی اثرورسوخ اور دباؤ کے بغیر اسرائیل کو رضامند کرنا ممکن نہ ہوتا۔
گزشتہ برسوں میں انہی تین ممالک نے اسرائیل اور حماس کے درمیان غیر رسمی پیغامات، قیدی تبادلے اور فائر بندی کے کئی مراحل میں سہولت فراہم کی۔ موجودہ جنگ بندی میں بھی مذاکرات کا مرکز مصر کا شہر شرم الشیخ رہا، جہاں قطری اور ترکی نمائندوں نے رابطوں کا پل بنایا۔
قطر کا کردار اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہ ایک جانب حماس سے براہِ راست بات کر سکتا ہے، اور دوسری طرف مغربی دنیا سے تعلقات رکھتا ہے۔ اسی توازن نے اسے ایک قدرتی ثالث بنا دیا۔ ترکی نے اپنے سفارتی اثر سے اور مصر نے جغرافیائی حیثیت سے کردار ادا کیا۔
کسی بھی معاہدے کی بنیاد فریقین کی آمادگی پر ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اندرونی دباؤ کا شکار تھا۔ یرغمالیوں کی واپسی، عالمی سطح پر تنقید، اور مالی لاگت نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
دوسری طرف حماس کے لیے یہ جنگ وجودی بن چکی تھی۔ مسلسل بمباری، رسد کی قلت اور انسانی جانوں کا نقصان اس کے لیے بھی ایک “وقفے” کی ضرورت پیدا کر رہا تھا۔ یوں دونوں طرف کی کمزوریوں نے ایک متوازن دباؤ پیدا کیا، جس نے جنگ بندی کو ممکن بنایا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2728 (2024) نے واضح طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ اسرائیل نے ابتدا میں اس پر عمل نہیں کیا، مگر عالمی برادری کا دباؤ بڑھتا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی میڈیا اور مختلف یورپی ممالک (خصوصاً اسپین، آئرلینڈ، اور ناروے) کی تنقید نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا۔
اگر انصاف کے ساتھ کہا جائے تو جنگ بندی کا کریڈٹ کسی ایک ملک یا رہنما کو نہیں دیا جا سکتا۔
- امریکہ نے دباؤ اور اثرورسوخ کا استعمال کیا۔
- قطر، مصر اور ترکی نے ثالثی اور رابطہ کاری کا کردار نبھایا۔
- اقوامِ متحدہ اور عالمی رائے عامہ نے اخلاقی اور سیاسی دباؤ ڈالا۔
- اور آخرکار، اسرائیل اور حماس نے مجبوری یا مصلحت کے تحت ہی سہی، مذاکرات کی راہ اختیار کی۔
یوں یہ معاہدہ کسی ایک کی کامیابی نہیں بلکہ ایک مشترکہ دباؤ، مداخلت اور ضرورت کا نتیجہ ہے۔
غزہ کی جنگ بندی وقتی سہی، مگر یہ انسانیت کے لیے ایک وقفہ ہے۔سانس لینے کا لمحہ۔ اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے: کیا فریقین اس موقع کو پائیدار امن میں بدل پائیں گے؟ یا یہ محض ایک سیاسی وقفہ ثابت ہوگا؟
وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کریڈٹ کس کو جاتا ہے، لیکن فی الحال کریڈٹ صرف امن کو جانا چاہیے۔