ایشیا سے جنوبی امریکا تک، نوجوانوں کے احتجاجی مظاہروں نے ایک نیا عالمی رخ اختیار کر لیا

Screenshot

Screenshot

میڈرڈ(دوست مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا بھر میں نوجوان نسل، جسے عموماً “جنریشن زی” کہا جاتا ہے، اب صرف سوشل میڈیا پر سرگرم نہیں بلکہ سڑکوں پر بھی اپنی موجودگی درج کروا رہی ہے۔ ایشیا سے لے کر جنوبی امریکا تک، نوجوانوں کے احتجاجی مظاہروں نے ایک نیا عالمی رخ اختیار کر لیا ہے۔ ان مظاہروں کا مشترکہ نشان ایک بھوسے کی ٹوپی پہنے کھوپڑی ہے، جو جاپانی اینیمے “ون پیس” سے ماخوذ اور مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔

Screenshot

یہ احتجاج دراصل سوشل میڈیا سے جنم لینے والی اس بغاوت کا نتیجہ ہیں جو کرپشن، ناانصافی اور نمائندگی کے فقدان کے خلاف ابھری۔ نوجوان نسل، جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی، موبائل فون کو اپنا سب سے مؤثر سیاسی ہتھیار بنا چکی ہے۔

پہلا بڑا مظاہرہ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہوا، جہاں ہزاروں طلبہ نے پارلیمنٹ کے باہر ارکانِ اسمبلی کی مراعات کے خلاف احتجاج کیا۔ بعد ازاں ایک مظاہر ےکے دوران 21 سالہ طالب علم کی ہلاکت نے تحریک کو مزید شدت دی، اور مظاہرین نے پولیس اصلاحات اور قومی پولیس سربراہ کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔

Screenshot

اسی دوران نیپال میں بھی نوجوانوں نے “بدعنوان اشرافیہ” اور “سیاسی خاندانوں کے اثر و رسوخ” کے خلاف بغاوت کی۔ حکومت کی جانب سے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (بشمول فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک) پر پابندی کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے۔ عوامی دباؤ کے باعث سابق وزیرِاعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن نیٹ ورکس پر پابندی لگائی گئی تھی، انہی پلیٹ فارمز کو نوجوانوں نے VPN کے ذریعے دوبارہ استعمال کرتے ہوئے احتجاج منظم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ویڈیوز نے نیپال کی تحریک کو عالمی سطح پر پہچان دی۔

یہ احتجاج جلد ہی ایشیا سے آگے بڑھ کر افریقہ اور جنوبی امریکا تک جا پہنچا۔ مڈغاسکر، مراکش، پیرو، پیراغوئے اور بولیویا میں بھی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ بظاہر ان کے مطالبات مختلف تھے، مگر ان سب میں ایک ہی جذبہ مشترک تھا: انصاف، آزادی اور خودمختاری کی تلاش۔

Screenshot

ہر جگہ ایک ہی علامت ابھر کر سامنے آئی، ون پیس کی کھوپڑی والی جھنڈی۔ یہ وہی علامت ہے جو ابتدا میں انڈونیشیا میں نظر آئی، جب شہریوں نے سرکاری قومی پرچم کے بجائے اسے احتجاج میں لہرایا۔ مظاہرین کے مطابق یہ نشان یاد دہانی ہے کہ “ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر اس کی پالیسیوں سے متفق نہیں”۔

ون پیس 1997 میں جاپانی مصنف ایئیچیرو اوڈا نے تخلیق کیا تھا۔ یہ کہانی ایک نوجوان قزاق لُفی کی جدوجہد بیان کرتی ہے جو ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑتا ہے۔ یہی پہلو نوجوانوں میں مقبول ہوا اور اب اس کا جھنڈا عالمی مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔

امریکی ماہرِ ابلاغ نورینتی جالی کے مطابق، یہ تحریک ظاہر کرتی ہے کہ “ڈیجیٹل دنیا میں نوجوانوں نے ایک ایسا مشترکہ سیاسی شعور پیدا کیا ہے جو سرحدوں سے بالاتر ہے”۔

اگرچہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو منظم ہونے میں مدد دی ہے، مگر اس کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مراکش میں 2 لاکھ سے زائد نوجوان ایک خفیہ Discord سرور پر احتجاجی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہیں، جہاں وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے نقلی نام اور VPN استعمال کرتے ہیں۔

کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ واضح قیادت نہ ہونا تحریک کی طاقت ہے، لیکن دوسروں کے نزدیک یہ کمزوری بھی بن سکتی ہے کیونکہ قیادت کے بغیر ان تحریکوں کے نتائج دیرپا نہیں رہتے۔

پھر بھی، اثرات نمایاں ہیں۔ نیپال اور مڈغاسکر میں حکومتیں گر چکی ہیں، اور دیگر ممالک میں بھی نوجوان اپنے حقوق کے لیے نئے مظاہروں کی تیاری کر رہے ہیں۔

جیسا کہ فلپائنی کارکن وِنسنٹ لیبریٹو نے کہا:“ہم صرف سکرین نہیں دیکھتے، ہم میدان میں بھی اترتے ہیں۔ ہمیں اپنے مستقبل کے لیے لڑنا ہی ہوگا، اور جب ہم دوبارہ نکلیں گے، تو کھوپڑی والا جھنڈا ایک بار پھر لہرا رہا ہوگا”

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے