جرمنی کی ہاؤسنگ مارکیٹ میں نسلی امتیاز ایک سنگین مسئلہ قرار
برلن (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)جرمنی میں رہائش کی تلاش سیاہ فام اور مسلم افراد کے لیے غیر معمولی طور پر مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق صرف غیر جرمن یا غیر ملکی لگنے والا نام بھی فلیٹ دیکھنے کی دعوت کے امکانات کم کر دیتا ہے۔
جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) کی جانب سے شائع ہونے والی اس جامع رپورٹ میں پہلی بار تفصیل سے یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ نسلی اور ثقافتی اقلیتوں کو جرمنی کی ہاؤسنگ مارکیٹ میں کس حد تک امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
DeZIM کے نیشنل ڈسکریمینیشن اینڈ ریسزم مانیٹر (NaDiRa) نے اگست 2024 سے جنوری 2025 کے درمیان 9 ہزار 500 سے زائد افراد کا سروے کیا۔ نتائج کو سرکاری اعداد و شمار، بشمول مختلف علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کی سطح، کے ساتھ جوڑا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مسلمانوں اور سیاہ فام افراد کو فلیٹ دیکھنے سے محروم کیے جانے کا امکان بالترتیب 35 اور 39 فیصد ہے، جبکہ غیر نسلی افراد میں یہ شرح صرف 11 فیصد پائی گئی۔
تحقیق کاروں نے عملی طور پر بھی اس رجحان کو جانچا۔ ایک ہی آمدن اور تعلیمی پس منظر کے ساتھ مختلف ناموں سے فلیٹ کے لیے درخواستیں بھیجی گئیں۔ جرمن نام رکھنے والے درخواست گزاروں کو 22 فیصد کیسز میں دیکھنے کی دعوت ملی، جبکہ مشرقِ وسطیٰ، ترکی یا افریقہ سے منسوب نام رکھنے والوں کو صرف 16 فیصد مواقع حاصل ہوئے۔
کینیا سے تعلق رکھنے والی بیلفین اوکوتھ 2023 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی آئیں۔ وہ گزشتہ پانچ ماہ سے بون شہر میں فلیٹ تلاش کر رہی ہیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً تین درخواستیں بھیجتی ہیں اور تمام درخواستیں جرمن زبان میں ہوتی ہیں، مگر انہیں شبہ ہے کہ ملاقات کے وقت ان کی شکل و صورت توقعات سے مختلف نکلنے پر انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کو عارضی یا غیر محفوظ رہائشی انتظامات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 12 فیصد نسلی اقلیتی افراد کے پاس محدود مدت کے کرایہ نامے ہیں، جبکہ غیر نسلی افراد میں یہ شرح 3 فیصد ہے۔
اسی طرح 37 فیصد نسلی اقلیتی افراد اپنی آمدن کا 40 فیصد یا اس سے زیادہ حصہ رہائش پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ دیگر افراد میں یہ تناسب 30 فیصد ہے۔
انیشی ایٹو شوارسے مینشن ان ڈوئچ لینڈ کے ترجمان طاہر ڈیلا کے مطابق جرمنی کی ہاؤسنگ مارکیٹ میں نسل پرستی ایک عام حقیقت بن چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اکثر سیاہ فام افراد کو جرمن نام کی بنیاد پر فلیٹ دیکھنے کے لیے بلایا جاتا ہے، مگر موقع پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلیٹ پہلے ہی کرایہ پر دیا جا چکا ہے۔
ایک افرو جرمن شہری نے بتایا کہ مستقل اور اچھی نوکری کے باوجود ان سے ضمانت دینے والے شخص کا مطالبہ کیا گیا، جو غیر ملکیوں کے لیے رہائش کے دروازے بند کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
فیئر میتن، فیئر ووہنن نامی ادارے کے ماہر الیگزینڈر تھوم کے مطابق امتیازی سلوک اکثر پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو ذہنی طور پر زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیاہ فام اکیلی ماؤں کے خلاف شور شرابے جیسے الزامات عام ہیں، جن پر بغیر ثبوت کے انتباہی نوٹس جاری کر دیے جاتے ہیں۔
DeZIM کی رپورٹ کے مطابق نسلی اقلیتوں کے لیے گھروں کا معیار بھی کم تر ہے۔ 57 فیصد نسلی اقلیتی افراد خراب حالت کے گھروں میں رہتے ہیں، جبکہ غیر نسلی افراد میں یہ شرح 48 فیصد ہے۔
اسی طرح نسلی اقلیتیں زیادہ آلودہ علاقوں میں، کم جگہ اور کم کمروں والے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین نے سفارش کی ہے کہ امتیاز کے خلاف قوانین کو مزید مضبوط بنایا جائے، قانونی سقم ختم کیے جائیں اور سستے سماجی گھروں کی فراہمی میں اضافہ کیا جائے۔
DeZIM کے سائنسی ڈائریکٹر نوا کے ہا کے مطابق مسئلہ زبان یا نظام کو نہ سمجھنے کا نہیں، بلکہ ساختی امتیاز کا ہے، جس کے تدارک کے لیے ریاست اور سول سوسائٹی کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔