عمیر رانا جب غار حرا میں پہنچے تو ان کے ساتھ کیا ہوا؟
پاکستانی مایاناز اداکار عمیر رانا نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے روحانیت سے پُر سفر اور اس میں غار حرا کا متاثر کُن قصہ سنا دیا۔
حال ہی میں عمیر رانا نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی اور بتایا کہ بچپن میں مذہب سے اس قدر قریب ہوگیا تھا کہ وہ اس نہج پر پہنچ گئے تھے جسے انتہا پسند کہیں تو غلط نہیں ہوگا، اس دور میں بڑے بھائی کی سالگرہ آئی تو انہیں مبارکباد تک نہیں دی جس کا بعد میں بہت افسوس ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ کسی طرح اس انتہا پسندی سے نکلے تو پہلے مذہب سے دور ہوگئے اور پھر جب بالغ ہوئے تو تمام مذاہب کی تعلیم حاصل کی، اس دوران دینِ اسلام کی جانب ایک بار پھر راغب ہوگئے۔
اداکار نے دینِ اسلام کی جانب دوبارہ راغب ہونے کا قصہ کچھ یوں بتایا کہ ایک بار اپنی والدہ کے ساتھ حج کے لیے گیا ہوا تھا، ان دنوں مجھے جوڑوں کی تکلیف کی شکایت تھی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن پھر بھی جبل نور پر چڑھنے کا فیصلہ کیا اور جب چڑھتے چڑھتے غار حرا تک پہنچا تو احساس ہی نہیں ہوا کہ مجھے درد بھی تھا۔
انہوں نے کہا جب غاز حرا میں پہنچا تو میری جو کیفیت تھی اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، اس وقت میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ میرے آخری نبیﷺ کو پہلی وحی اس جگہ نازل ہوئی تھی، میری زبان پر صرف سورۃ العلق کی ابتدائی آیت یعنی اقرا ہی تھی، جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اور ہم یہ ہی نہیں کر رہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ اگر میری یہ حالت ہے تو آپﷺ اور دیگر انبیا کرامؑ کی کیا حالت ہوتی ہوگی، جب ان پر وحی نازل ہوئی ہوگی، پھر جب میں غار حرا سے واپس آیا تو مجھے جوڑوں کی تکلیف مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی اور یہ ہی وہ وقت تھا جب میں دین اسلام کی طرف دوبارہ لوٹ کر آیا تھا۔
عمیر رانا نے اپنے سُپر ہٹ ڈرامہ سیریل ’سنگ ماہ‘ کی شوٹنگ کے حوالے سے بھی بتایا کہ اس دوران بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا اور اس وقت احساس ہوا کہ میں اپنی ذہنی حالت پر خود قابو پاسکتا ہوں۔