کسی بھی حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کسی بھی حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس ہوا، جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کو 26 مارچ کو خط ملا، معاملےکی سنگینی پر اسی دن چیف جسٹس اور اسلام آباد کے 6 ججز کی میٹنگ بلائی، چیف جسٹس نے اپنی رہائش گاہ پر تمام جج صاحبان کو مدعو کیا اور تمام جج صاحبان سے انفرادی طور پر گفتگو کی، ملاقات میں انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی تجویز آئی، اچھی ساکھ والے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کو معاملے کی چھان بین کرنی چاہیے۔
اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور 6 ججز کی میٹنگ چیف جسٹس پاکستان کی رہائش گاہ پر ہوئی، 27 مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیرقانون سے ملاقات کی، چیف جسٹس اور سینئر ترین جج نے بعد میں صدر سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کے سینئر ارکان سے ملاقات کی۔
27 مارچ کو ہی چیف جسٹس کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے تمام ججز کی فل کورٹ میٹنگ بلائی گئی، فل کورٹ کی اکثریت میں اتفاق ہوا معاملے کی سنگینی کے پیش نظر چیف جسٹس وزیراعظم سے ملیں۔
اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے وزیر قانون، اٹارنی جنرل کے ہمراہ چیف جسٹس، سینئر ترین جج، رجسٹرار سے ملاقات کی۔
وزیراعظم نے یقین دلایا وہ آزاد عدلیہ کو یقینی بنانے کیلئے مزید مناسب اقدامات کریں گے اور یقین دہانی کروائی کہ کمیشن کی تشکیل کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جائے گا۔
اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹو کی جانب سے ججز کے عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے، کسی بھی حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس اور سینئر ترین جج نے اپنے بیان میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی ستون ہے، جو قانون کی حکمرانی برقرار رکھتا ہے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ فل کورٹ میٹنگ نے 6 ججز کے خط میں اٹھائے گئے ایشوز پر غور کیا۔
یاد رہے کہ فل کورٹ اجلاس چیف جسٹس اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کے بعد ہوا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدلیہ میں ایگزیکٹیو اور خفیہ اداروں کی مداخلت کا معاملہ اُٹھایا تھا۔
ان ججز نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے کہ کہیں کیسز کی سماعت کے لیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی مداخلت تو نہیں ہو رہی؟