عالمی یوم مزدور اور سوسائٹی کی ذمہ داری!تحریر ۔مظہر حسین راجہ

یوم مزدور کے دن چھٹی کر لینا یا احتجاج کر لینا کافی نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جہاں ہم رہائش پذیر ہیں وہاں اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں یا نہیں۔
اسپین کو ہی لے لیجیے، جہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پاکستانی آباد ہو چکے ہیں اور اکثریت کا تعلق مزدور طبقہ سے ہے جبکہ کاروباری طبقہ کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے مگر ان دونوں طبقات کی کوئی بھی رجسٹرڈ نمائندہ تنظیم، ایسو سی ایشن یا فورم نہیں جو ان کے حقوق کی بات کرے۔ سینکڑوں دیگر فلاحی تنظیمات, ان کے صدور اور نائب صدور موجود ہیں مگر مزدور کے حقوق پر کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بزنس طبقہ کی بھی کوئی ٹریننگ نہیں ہوتی اور نہ ہی انہوں نے کوئی بزنس کا کورس کیا ہوتا ہے۔ مزدور کا استحصال بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ کاروبار کے اصول نہیں جانتے اور یورپی مارکیٹ میں ٹرینڈ ملازم کی اہمیت نہیں جانتے ورنہ مزدور کے لیے آسانی پیدا کر کے وہ اپنے کاروبار کو ڈبل بھی کر سکتے ہیں کیونکہ بڑی بڑی نیشل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں مزدور کے حقوق ادا کر کے ہی ترقی کی راہ پر ہمیشہ گامزن رہتی ہیں۔ کاروبار کے اصول ایک ہی ہوتے ہیں چاہے کاروبار بڑا ہو یا چھوٹا، یورپی کمپنیوں نے اسلام کے بہت سارے کاروباری اصول پہلے سے اپنا رکھے ہیں اور ان کی کوئی منفی خبر اتی ہے اور نہ ہی ان کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا ہے جبکہ مسلمان تاجر میں اسلام کے کاروباری اصول زیادہ نمایاں ہونے چاہیے اور مزدور کے حقوق و ٹائم کا سب سے پہلے خیال رکھنا چاہیے مگر مسلمان تاجر ایسا نہیں کرتے۔
سپین میں پاکستانی مزدوروں کے لیے کوئی بھی ایسو سی ایشن نہیں حالانکہ اس کی سب سے پہلے ضرورت تھی۔ ایک سوسائٹی کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے وہ کاروباری حضرات کو بزنس ٹریننگ کے فورم فراہم کرے، سیمینارز و بزنس کانفرنسز کا اہتمام کرے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلائے اور مقامی قوانین سے بھی اگاہ کرے جبکہ دوسری طرف مزدور طبقے کو فنی تعلیم فراہم کرنا، روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور انھیں اپنے قانونی حقوق سے آگاہ کرنا بھی معاشرے کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے مگر ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا جس وجہ سے مزدور پریشان رہتا ہے کیونکہ اسے کسی پاکستانی فورم سے کوئی اخلاقی ،قانونی یا مالی معاونت حاصل نہیں ہوتی جب کہ مالی مشکلات میں وہ بیچارہ اتنا جکڑا ہوتا ہے کہ وہ خاموشی سے غلام کی طرح اپنا کام جاری رکھتا ہے۔
بہت سی تنظیمات موجود ہیں اور ائے دن ان کے اجلاس اور کھانے بھی ہوتے رہتے ہیں اور کیا ہی اچھا ہو جائے کہ اسی دوران پانچ یا 10 منٹ کے لیے مزدور طبقے کی فنی تعلیم ،کاروباری حضرات کی پروفیشنل ٹریننگ پر بھی بات ہوتی رہے اور ورکر کے حقوق کی بھی کھل کر بات کی جائے کیونکہ یہ ہمارا اخلاقی ،قانونی، قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔

مزدور کے حقوق اور حلال کاروبار کے لیے قران و حدیث میں بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل موجود ہے۔ انسان ایمانداری، محنت اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے معاشرے میں عزت پاتا ہے اور قیامت کے دن بھی وہی کامیاب تصور کیا جائے گا جو اللہ کے حقوق کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھے گا۔ روز مرہ کے کام میں مزدور کے حقوق کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ صرف تنقید برائے تنقید سے مزدور کے حقوق نہیں دلائے جا سکتے اور نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف مذہبی تنظیمات یا مولوی صاحب ہی کاروباری حضرات کو مزدور کے حقوق کی تبلیغ کریں بلکہ اس کے لیے تمام تنظیمات کو مل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اسپین میں پاکستانی مزدور زندہ باد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے