سویڈن: چھوٹا سا فلاحی یورپی ملک ’انتہائی امیر لوگوں کی جنت‘ میں کیسے بدلا
سٹاک ہوم/سویڈن ایک ایسا ملک ہے جس کی عالمی شہرت ٹیکس کی زیادہ شرح اور معاشرتی برابری کے تصور سے جڑی ہے لیکن اب یہ ملک یورپ میں امیر ترین لوگوں کی آماجگاہ بن رہا ہے۔
لنڈنگو جزیرے میں لال اور پیلے رنگ کے بڑے بڑے لکڑی سے تعمیر شدہ پرآسائش گھر نظر آتے ہیں جبکہ چند سفید رنگ کے حویلی نما گھر بھی ہیں جن میں زمین سے چھت تک کھڑکیاں ہیں۔
یہ سٹاک ہوم کے مرکز سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر موجود سویڈن کے سب سے امیر افراد کا رہائشی علاقہ ہے۔
کونراڈ برجسٹروم نے ایک لائٹ آن کر کے مجھے شراب کی تین ہزار بوتلوں سے بھرا ہوا تہہ خانہ دکھایا۔ مسکراتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’فرانسیسی شراب مجھے بہت پسند ہے۔‘ان کے گھر میں ایک سوئمنگ پول، جِم اور ایک نائٹ کلب بھی ہے۔ نائٹ کلب کو دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے وضاحت دی کہ ’میرے بہت سے دوستوں کا تعلق موسیقی کے شعبے سے ہے اور ہم اکثر موسیقی پر کام کرتے ہیں۔‘ کونراڈ نے ہیڈ فون اور سپیکر تیار کرنے والی کمپنیوں کی مدد سے پیسہ بنایا ہے اور وہ سویڈن اور سپین میں اس گھر کے علاوہ بھی تین مکانات کے مالک ہیں۔
ایک کامیاب کاروباری شخصیت کا ایسا طرز زندگی حیران کن نہیں لیکن چند لوگوں کے لیے شاید یہ حیران کن بات ہو کہ کونراڈ سمیت کتنے ہی لوگ سویڈن میں اتنے امیر ہیں۔
اگرچہ اس وقت سویڈن میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت برسراقتدار ہے لیکن گذشتہ صدی کے دوران زیادہ وقت ملک پر سوشلسٹ ڈیموکریٹ حکومت کا راج رہا، جن کا منشور ملک کو ایک مضبوط فلاحی ریاست بنانے کا تھا جس کے لیے ٹیکسوں کی مدد سے برابری کے اصول کے تحت معیشت کو ترقی دینا مقصود یہ سٹاک ہوم کے مرکز سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر موجود سویڈن کے سب سے امیر افراد کا رہائشی علاقہ ہے۔
تاہم گذشتہ تین دہائیوں کے دوران سویڈن میں انتہائی امیر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ویکانز افریئر نامی کاروباری میگزین کے مطابق 1996 میں ایک بلین کرونور یا موجودہ ایکسچینج ریٹ کے حساب سے 91 ملین امریکی ڈالر مالیت سے زیادہ دولت رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 28 تھی جن میں سے اکثریت کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو نسل در نسل دولت مند تھے۔
ایفٹون بلیڈت نامی اخبار کے ایک ایسے ہی تجزیے کے مطابق 2021 تک یہ تعداد 542 ہو چکی تھی اور یہ لوگ ملکی جی ڈی پی کے 70 فیصد کے برابر دولت رکھتے تھے۔
یوں صرف ایک کروڑ افراد کی آبادی والے ملک میں دنیا میں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ارب پتی افراد ہیں۔ فوربز میگزین نے 2024 میں امرا کی فہرست میں 43 سویڈش شہریوں کا نام شامل کیا جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی دولت رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہر 10 لاکھ میں سے چار لوگ ارب پتی ہیں۔ امریکہ میں یہ تناسب 10 لاکھ میں سے دو لوگوں کا ہے جہاں مجموعی طور پر 813 ارب پتی ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تاہم امریکہ کی آبادی سویڈن سے کہیں زیادہ ہے۔
آندریاس سروینکا ’ایفٹون بلیڈت‘ نامی اخبار میں کام کرتے ہیں جنھوں نے ’لالچی سویڈن‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں آندریاس نے سویڈن میں انتہائی امیر افراد کی تعداد میں اضافے کا جائزہ لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تقریبا چوری چھپے ہوئے جس کے بارے میں اس وقت تک پتہ نہیں چلا جب تک یہ ہو نہیں چکا تھا۔‘
’لیکن سٹاک ہوم میں آپ اس دولت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور چند علاقوں میں بسنے والے انتہائی امیر اور دوسرے علاقوں میں رہنے والے انتہائی غریب لوگوں کے درمیان فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔‘کیپشن
آندریاس سروینکا ’ایفٹون بلیڈت‘ نامی اخبار میں کام کرتے ہیں جنھوں نے ’لالچی سویڈن‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے
سویڈن میں انتہائی امیر بن جانے والے افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ مقامی طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی ہے۔ سویڈن کی شہرت یورپ کی ’سیلیکون وادی‘ کے طور پر قائم ہو چکی ہے جہاں دو دہائیوں کے دوران ایک ارب ڈالر مالیت والی 40 کمپنیاں بنیں۔
سکائپ اور سپاٹیفائی کے عاوہ گیمنگ کمپنیاں کنگ اور موجانگ بھی سویڈن میں ہی قائم ہوئیں۔ حالیہ دور میں عالمی سطح پر کامیاب ہونے والوں میں مالیاتی کمپنی ٹنک بھی شامل ہے جسے کورونا وبا کے دوران ویزا کمپنی نے دو ارب ڈالر میں خریدا۔
اولا اہلوارسن ایک تجربہ کار کاروباری شخصیت ہیں۔ انھوں نے سویڈن کی اس کامیابی کو 1990 کی دہائی میں ہونے والی پیش رفت سے جوڑا جب گھریلو کمپیوٹر پر ٹیکس چھوٹ سے ’ہم نے باقی ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے دنیا سے رابطہ قائم کیا۔‘
انھوں نے سویڈن کی کاروباری دنیا میں مل کر کام کرنے کے رواج کا بھی ذکر کیا جہاں کامیاب ہونے والے لوگوں نے نئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔
سویڈن کا حجم اسے ایک مشہور تجرباتی منڈی کا روپ بھی دیتا ہے۔ اولا کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی چیز بڑے پیمانے پر کام کرے گی تو آپ محدود سرمایے اور کم خطرات کے ساتھ یہاں اپنے کاروباری خیال کا تجربہ کر سکتے ہیں۔‘
آندریاس سروینکا کا موقف ہے کہ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو توجہ کا طالب ہے۔ ان کے مطابق ’یہ مالیاتی پالیسیاں ہیں جنھوں نے سویڈن کو انتہائی امیر لوگوں کی جنت میں بدل ڈالا ہے۔‘سنہ 2010 سے چند سال پہلے تک سویڈن میں شرح سود کافی کم تھی جس کی وجہ سے بینکوں سے ادھار رقم حاصل کرنا آسان تھا۔ اسی لیے اکثر شہریوں نے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی یا پھر نئی کمپنیوں میں پیسہ لگایا اور نتیجتا کئی نئی کمپنیوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا۔
آندریاس سروینکا کہتے ہیں کہ ارب پتی افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چند برسوں کے دوران اثاثوں کی قیمت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
سویڈن میں زیادہ کمانے والوں کی ذاتی کمائی پر 50 فیصد سے زیادہ ٹیکس لگتا ہے، جو یورپ میں سب سے زیادہ ہے، تاہم آندریاس کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند حکومتوں نے چند ٹیکسوں کو اس طریقے سے مرتب کیا کہ امیر لوگوں کو اس کا فائدہ ہوا۔
سویڈن میں دولت اور وراثت کے ٹیکسوں کو 2000 کی دہائی میں ختم کر دیا تھا جبکہ سٹاک یا کمپنی کے شیئر ہولڈرز کو حصہ دینے پر عائد ٹیکس کی شرح تنخواہ سے کہیں کم ہے۔ دوسری جانب کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں بھی 1990 سے اب تک 10 فیصد تک کمی ہو چکی ہے جو یورپی اوسط سے نیچے ہے۔
آندریاس سروینکا کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ ارب پتی ہیں تو آپ کو سویڈن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں بلکہ حقیقت میں اب چند ارب پتی سویڈن منتقل ہو رہے ہیں۔‘کیپشن
2017 میں نکلاس نے اپنی دولت سے 130 ملین ڈالر کا استعمال کرتے ہوئے نورسکین فاونڈیشن قائم کی تھی جس کے ذریعے ایمپیکٹ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے
لنڈنگو جزیرے کے رہائشی کونراڈ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سویڈن کا ٹیکس نظام ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو کمپنیاں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ دولت میں اضافے کا ایک مثبت اثر پڑتا ہے کیوں کہ ان کا کاروبار اور گھر دوسرے لوگوں کو ملازمت فراہم کرتے ہیں۔
’ہمارے پاس بچے کو سنبھالنے والی ایک ملازمہ، مالی اور صفائی والے کام کرتے ہیں اور دیگر ملازمتیں بھی ہیں۔ تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک معاشرے کو قائم کر رہے ہیں۔‘
کونراڈ نشان دہی کرتے ہیں کہ سویڈن کے دولتمند کاروباری لوگ اپنا پیسہ ایسی نئی کمپنیوں میں بھی لگا رہے ہیں جن کا مقصد معاشرے اور ماحول میں بہتری لانا ہے۔
ان کمپنیوں کو ’امپیکٹ سٹارٹ اپس‘ کا نام دیا گیا ہے اور 2023 میں تقریبا 74 فیصد وینچر کیپیٹل فنڈنگ ایسی کمپنیوں کو ہی ملی۔ یورپی یونین کے حساب سے یہ کافی زیادہ شرح ہے جہاں اوسطا 35 فیصد تک ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہوئی۔ یہ اعددا و شمار ڈیل روم نامی کمپنی کے ہیں۔
سویڈن میں ایسی سرمایہ کاری کرنے والے سب سے اہم فرد نکلاس اڈلبرتھ ہیں جنھوں نے ’کلارنا‘ نامی پلیٹ فارم قائم کیا۔ 2017 میں نکلاس نے اپنی دولت سے 130 ملین ڈالر کا استعمال کرتے ہوئے نورسکین فاونڈیشن قائم کی تھی جس کے ذریعے ایمپیکٹ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ارب پتی لوگوں کی طرح مجھے بڑی ذاتی کشتی یا نجی ہوائی جہاز رکھنے کا شوق نہیں ہے۔ میرے لیے خوشی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔‘
تاہم دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ سویڈن میں ارب پتی افراد کی دولت کے بارے میں مفید عوامی بحث نہیں ہو رہی اور یہ صرف اس نکتے تک محدود ہے کہ کامیاب کاروباری شخصیات اپنی دولت کیسے اور کہاں خرچ کر رہی ہیں۔
اوریبرو یونیورسٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق سویڈن کے ارب پتی افراد کی میڈیا میں تصویر کشی بڑی حد تک مثبت ہے۔
میڈیا محقق ایکسل وکسٹروم کا کہنا ہے کہ ’جب تک انتہائی امیر لوگ نیو لبرل تصورات پر کاربند نظر آئیں گے، جیسا کہ محنت کرنا، خطرات مول لینا اور کاروباری رویہ اپنانا، اس سب کے پیچھے موجود عدم مساوات پر سوال نہیں ہو گا۔‘
آندریاس سروینکا کے مطابق انتہائی امیر افراد پر زیادہ ٹیکس لگانے کی بحث سویڈن میں اتنی شدید نہیں جتنی امریکہ یا باقی مغربی ممالک میں ہے۔
’یہ ایک متضاد چیز ہے کیوں کہ سوشلسٹ ملک کا تصور ہونے کے ناتے گمان کیا جانا چاہیے کہ یہ سب سے اول نکتہ ہو گا۔ میرے خیال میں اس کا تعلق اس سوچ سے ہے کہ جیتنے والا ہی سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔‘
’یعنی اگر آپ اپنے پتے درست طریقے سے کھیلیں تو آپ بھی ارب پتی بن سکتے ہیں اور سویڈن کی مجموعی سوچ میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔‘
سویڈن کی اس فہرست سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ملک کی دولت کا بڑا حصہ سفید فام مردوں تک محدود ہے اگرچہ کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
لولا اکنمیڈ ایک ناول نگار اور کاروباری شخصیت ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ہاں، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ پیسہ بنا سکتے ہیں لیکن یہ محدود ہے اور اب بھی دوہرے معیار کافی زیادہ ہیں کہ کس کے خیال کو فنڈ کیا جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سویڈن کئی اعتبار سے ایک رہنما ملک ہے لیکن بہت سے لوگ نظام سے باہر ہیں۔‘