اٹلی کا شہر مونفالکن جہاں مسلمانوں کے لیے کوئی مسجد نہیں
اٹلی کے شمال مشرقی شہر مونفالکن میں نماز جمعہ کے لیے سینکڑوں مسلمان کنکریٹ کی پارکنگ میں سجدہ ریز ہیں۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق شہر کی انتہائی دائیں بازو کی میئر نے وہاں موجود دو ثقافتی مراکز میں نومبر سے نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
مونفالکن کے رہائشی مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے علاقے میں موجود نجی ملکیتی تعمیراتی جگہ پر جمع ہونا پڑتا ہے۔
وہاں موجود مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہم عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں جو رواں ماہ کے آخر تک متوقع ہے تاکہ اس معاملے کا حل نکلے، ان کا کہنا ہے کہ مذہبی رسوم کے ان کے آئینی حق کو روک دیا گیا ہے۔
نجی تعمیراتی جگہ کے مالک رجا الحق نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں بسنے والے مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس پر افسوس ہے حالانکہ ہم اس شہر کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔
یہاں موجود بنگلہ دیش نژاد اطالوی شہری نے بتایا کہ ’میں 2006 سے یہاں ہوں اور ٹیکس ادا کرتا ہوں، آپ بتائیں ہم کہاں جائیں؟‘
انہوں نے کہا ’اگر یہاں کیتھولک، آرتھوڈوکس، پروٹسٹنٹ، یہوواہ کا اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں اور چرچ موجود ہیں تو ہمارے پاس مسجد کیوں نہیں ہو سکتی؟‘مونفالکن میں اٹلی کا سب سے بڑا شپ یارڈ ہے جہاں کروز لائنر تیار ہوتے ہیں، وہاں ایک تہائی تارکین کام کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بنگلہ دیشی مسلمان ہیں جو 90ء کی دہائی سے یہاں آباد ہیں۔
علاقے میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کی موجودگی ہر جگہ نظر آتی ہے جو سائیکلوں پر سوار کام پر آتے جاتے ہیں یا خریداری کے لیے دکانوں پر موجود ہوتے ہیں۔
شہر کی میئر اینا سیسنٹ کا کہنا ہے کہ ’نماز پر پابندی امتیازی سلوک نہیں، شہر میں منصوبہ بندی کے ضوابط عبادت گاہوں کے قیام کو سختی سے محدود کرتے ہیں اور سیکولر ریاست میں عبادت گاہ فراہم کرنا ان کا کام نہیں۔‘
اینا سیسنٹ کا کہنا ہے کہ ’بطور میئر میں کسی کے خلاف نہیں، مخالفت میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتی لیکن قانون کے نفاذ کے لیے میں یہاں موجود ہوں۔‘
میئر کا کہنا ہے کہ ’بہت سے بنگلہ دیشی خاندانوں کے شہر میں قیام سے یہاں مسلمان تارکین کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘
شہر کی مسلم آبادی کے ’معاشرتی عدم استحکام‘ کے بارے میں میئر اینا سیسنٹ کے تنبیہی بیانات حالیہ مہینوں میں شہ سرخیوں میں ہیں۔
واضح رہے کہ اطالوی قانون کے تحت اسلام ان 13 مذاہب میں شامل نہیں جنہیں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ عبادت گاہوں کی تعمیر کی کوششوں کو پیچیدہ بناتی ہے۔
اٹلی میں اہم مسلم انجمنوں میں سے ایک اسلامی مذہبی کمیونٹی (COREIS) کے ذمہ دار یحییٰ زانولو نے بتایا ہے کہ یہاں سرکاری طور پر تسلیم شدہ مساجد کی تعداد 10 سے کم ہے۔