پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلیچیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلہ سنادیا، پشاور ہائیکورٹ کو فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان کی الاٹمنٹ کیخلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیدیا، تحریک انصاف بلے کے نشان پر انتخاب نہیں لڑ سکے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شواہد نہیں ملے کہ پی ٹی آئی نے شفاف الیکشن کرائے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل منظور کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کیخلاف اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ حامد خان نے ایک دن اور بڑھانے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل مکمل کریں آج ہی فیصلہ کردیں گے۔ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان اور اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہوگئے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹ کرنے کے وقت میں مزید توسیع کرتے ہوئے وقت 12 بجے تک کردیا۔ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ ساڑھے 9 بجے سنانے کا وقت مقرر کیا تاہم اس میں پونے گھنٹے تاخیر ہوچکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا3رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
انتخابی نشان الاٹ کرنے کے وقت میں چوتھی بار توسیع
چیف جسٹس آف پاکستان نے بیرسٹر گوہر کے گھر چھاپے سے متعلق سوال کیا کہ کیا آپ مطمئن ہیں، جس پر بیرسٹر گوہر علی نے جواب دیا کہ ابھی تک کے احکامات سے مطمئن ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر گوہر مطمئن نہ ہوئے تو مزید ایکشن بھی لیں گے، انہوں نے پوچھا کہ آپ کے گھر کون کون تھا؟۔ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ میری اہلیہ اور بچے گھر پر تھے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اپیل صرف متاثرہ شخص ہی دائر کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن متاثرہ شخص کی تعریف میں نہیں آتا، الیکشن کمیشن اپیل دائر نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ اچھی یا بری خبر ہے کہ ٹکٹ جمع کرانے کا وقت 7 بجے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ میں تو کہوں گا آپ اُنہیں ایک دن اور بڑھانے کی ہدایت کردیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل مکمل کریں آج فیصلہ کر دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیرسماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے؟۔ حامد خان نے جواب دیا کہ دونوں کیسز الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟، الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کیلئے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے۔ حامد خان نے کہا کہ اپیل کیلئے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کرسکے گا؟، الیکشن کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کرسکتا؟، معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ معلومات تک رسائی کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن کیخلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کرسکتا؟، اگر ہائیکورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آوازیں آپ کی پارٹی کے اندر سے اُٹھ رہی ہیں۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے اندر کا معاملہ نہیں دیکھ سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ اپنے ہی لوگوں سے گھبراتے کیوں ہیں؟۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ جس پر حامد خان بولے کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیئے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ دوہرا معیار اپنایا، کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح اسکروٹنی نہیں کی۔
چیف جسٹس بولے کہ جن کی اسکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، ایک سیاسی جماعت کا وجود ہی الیکشن کمیشن نے ختم کردیا ہے؟۔ حامد خان نے بتایا کہ درخواست گزاروں نے خود دستاویزات لگائی ہیں دو جماعتوں میں بلامقابلہ انتخاب ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا ان جماعتوں کیخلاف کوئی شکایت آئی یا الیکشن کمیشن سوموٹو لیتا؟۔
وکیل پی ٹی آئی نے اپنے دلائل میں کہا کہ شکایت کنندہ تو ہمارے ملک میں مل ہی جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس وجیہہ الدین نے بھی انتخابات کرائے تھے بہت شور مچ گیا تھا۔ حامد خان نے جواب دیا کہ 12-2011ء کا پارٹی الیکشن میں نے کرایا تھا، وجیہہ الدین ٹربیونل میں تھے، انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے، الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، الیکشن کمیشن نے آج ہی ایک جماعت پر صرف 20 ہزار روپے جرمانہ کیا، یہ امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو الیکشن کمیشن 2021ء سے نوٹس دے رہا تھا، انہوں نے پوچھا کہ حامد خان صاحب کیا آپ خود الیکشن لڑ رہے ہیں، حامد خان نے جواب دیا خود الیکشن نہیں لڑرہا، میری اب عمر نہیں ایسی سرگرمی میں حصہ لوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اے این پی کو جرمانہ ہوا، پی ٹی آئی کو 2021ء میں جرمانہ نہیں ہوا، کل کو اے این پی کہہ سکتی ہے پی ٹی آئی کو جرمانہ نہیں کیا، ہمیں کیوں کردیا، ہم الیکشن کمیشن کا کنڈکٹ دیکھ رہے ہیں تو پارٹی کا کنڈکٹ بھی دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود مانا اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی ممبر ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ بانی ممبر پارٹی کیخلاف کھڑا ہوجائے تو کیا اُس کو مان لیا جائے گا؟۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ فوزیہ قصوری بھی پارٹی میں ہیں یا چلی گئیں؟۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ کے سامنے معاملہ یہ ہے انتخانی نشان ملنا چاہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب کل آپ کو اکبر ایس بابر کی طرح نکالا جائے تو کیا کریں گے؟، میں متعلقہ عدالت میں جاؤں گا، آپ کے سامنے وہ معاملہ چیلنج نہیں کیا گیا، پشاورہائیکورٹ میں استدعا تھی کمیشن پارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
حامد خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 14 درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں۔ حامد خان نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کرسکتا ہے؟، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کررہا ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے؟، الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کا حق کیسے متاثر ہوتا؟۔ حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے؟، بانی رکن اپنی پارٹی کے خلاف کیسے عدالتوں میں جاچکا ہے؟، سپریم کورٹ نے اکبر ایس بابر کو شوکاز جاری کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں۔
حامد خان نے دلائل دیئے کہ اکبر ایس بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقۂ کار کا نہیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے اسے دیکھنا ہوگا کہ اثرات کیا ہوں گے۔
انٹراپارٹی الیکشن چیلنج کرنیوالے ارکان
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ممبران بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ پی ٹی آئی رکن یوسف خان نے کہا کہ بچپن سے پی ٹی آئی میں ہوں، مجھے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، میں دوحہ میں رکن بنا تھا، الیکشن کا ارادہ تھا پراسیس پتہ ہی نہیں چلا۔
خاتون رکن نورین فاروق نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نعیم الحق کی سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی، کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جاؤں، پی ٹی آئی چیئرمین مجھے پارٹی کا اثاثہ کہتے تھے۔
بانی رکن بلال اظہر رانا نے کہا کہ 25 اپریل 1996ء سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں، میرے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے۔ حامد خان نے کہا کہ پارٹی کسی کو ممبر نہ مانے تو اُس کا کام ہے عدالت میں خود کو رکن ثابت کرے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا 1999ء کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے، پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر وکیل تحریک انصاف حامدخان نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بیرسٹرعلی ظفروکیل تھے، بیرسٹرعلی ظفرہی دلائل دیں گے، میں نے دیکھا ہے،فیصلہ بہت اچھا لکھا گیا ہے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وقت کی قلت ہےاس لیےجلددلائل مکمل کرنےکی کوشش کروں گا، آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ آرڈر بھی لکھنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف جنرل نوعیت کی چیزیں جانناچاہتےہیں، پاکستان میں الیکشن کی شفافیت کم ہی تسلیم کی جاتی ہے، الیکشن کی چھوٹی چھوٹی باریکیوں میں نہیں جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تسلیم کیاگیاکہ اکبرایس بابرپارٹی کےبانی ممبرہیں، محض آپ کسی کوپسندنہ کریں توممبرشپ ختم نہیں ہوجاتی، کیا ممبران کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا شفاف موقع ملا یا نہیں؟ اس بنیادی سوال کاجواب نہ ہونامشکل میں ڈال سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا پارٹی کے اندر جمہوریت ہے یا نہیں؟
دوران سماعت وکیل تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی نشان پارٹی کا بنیادی حق ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی، چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے۔ آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مثال سب سے پہلے ہے، ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کاذکرنہیں کیا، الیکشن کمیشن کےحکم نامہ میں تسلیم شدہ ہےکہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئےتھے، جواب ملنےکےبعدالیکشن کمیشن نےالیکشن کالعدم قراردے کرانتخابی نشان واپس لے لیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے32سوالات بھیجےجن کاتحریری جواب دیا، ہمارابنیادی مؤقف تھاکہ درخواست گزارپارٹی ممبرنہیں ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے20دن میں انتخابات کرانےکاحکم دیا، خدشہ تھاپی ٹی آئی کوانتخابات سےباہرنہ کردیاجائےاس لیےعملدرآمدکیا، پی ٹی آئی نے 2022 میں انٹراپارٹی انتخابات کرائے جوالیکشن کمیشن نےتسلیم نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات جماعت کےآئین کے مطابق کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن کا تنازعہ سول کورٹ میں ہی جاسکتاتھا، پی ٹی آئی کےکسی رکن نےالیکشن چیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن فیئرٹرائل نہیں دےسکتا،نہ ٹرائل ہوا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین نہ الیکشن ایکٹ2017انٹراپارٹی الیکشن کی اسکروٹنی کااختیاردیتاہے، آئین وقانون کسی پارٹی کوانتخابی نشان سےمحروم کرنےکی اجازت نہیں دیتا، میراپہلانکتہ عدالت کےسامنےیہی ہوگا۔
وکیل تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ میرادوسرانکتہ آئین کاآرٹیکل17ہوگا، الیکشن کمیشن بے ضابطگی کےالزام پرانتخابی نشان واپس نہیں لےسکتا، سپریم کورٹ نےکئی فیصلوں میں آئین کےآرٹیکل17کی تشریح کی، ایک نشان پرانتخاب لڑناہرسیاسی جماعت کاحق ہے۔ انتخابی نشان سےمحروم کرنا سیاسی جماعت،عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ میرا پانچواں نکتہ ہےکہ الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک روار کھا، غلط فیصلہ دیا جائے تو اس کاجوڈیشل ری ویوہوسکتا ہے، میرا اگلا پوائنٹ یہ ہےکہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر حقائق کی بدنیتی کا الزام واپس لے لیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں بدنیتی کہاں ہوئی؟ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن پراسٹیبلشمنٹ کادباؤ ہے تو ثابت بھی کریں، آپ تسلیم کریں مجھےپارٹی الیکشن کرانا ہے۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفرنےالیکشن کمیشن پرحقائق کی بدنیتی کاالزام واپس لےلیا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کااختیار،اگروہی نہ ہواتوباقی چیزیں ختم ہوجائیں گی، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےجن بے ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اس کی نشاندہی کررہاہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8لاکھ ارکان پر اعتماد کیوں نہیں؟ آپ کاایک بانی رکن کہہ رہاہے اسے الیکشن لڑنے نہیں دیاگیا، اکبرایس بابرکی سپورٹ نہیں تھی توالیکشن لڑکر ہارجاتے، اس وقت پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ہیں، ایسے میں پارٹی الیکشن کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے، کل وہ نکل کرکہیں کون لوگ ہیں یہ میں تونہیں جانتا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کے پارٹی آئین سےہی چیزیں نکال کربتائیں، الیکشن کمیشن نے اپنی جانب سے آپکو کچھ نہیں کہا،چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے کہا جائے الیکشن ہوگئے، یاتوکہاجائےپارٹی نے الیکشن کرائے ہی نہیں۔ کوئی آئینی اورقانونی حوالہ دیں تومان لیں گے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بےضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن سب ہمارے ادارے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے تمام اداروں کی ضرورت ہے جن کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا، صرف سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے ہمارے تمام اداروں کا نقصان ہوتا ہے، پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی۔ اس وقت سب ٹھیک تھا اب پی ٹی آئی کہتی سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے۔
کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، چیف جسٹس
دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے کیس کا تذکرہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو تب اصول کیوں نظر انداز کردیئے جاتے ہیں، ہم یہ باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 2018 میں ایک پارٹی صدارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم کردیا گیا، کچھ لوگ اس فیصلے کا شکار ہوئے، آپ نے اس فیصلے کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کیئے جو آپ کو میسر نہیں تھے، علی ظفر صاحب آپ اس ایوان کے رکن ہیں، آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ 2 کیسز میں قرار دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن عدالت نہیں اس لئے ٹرائل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں لیکن آئینی ادارہ ہے۔