فلسطین کے نام، ضمیر کی ایک صدا۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر قمر فاروق

IMG_1548

دنیا کے ہنگاموں میں کچھ آوازیں ایسی بھی اٹھتی ہیں جو صرف الفاظ نہیں ہوتیں، وہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ آج جب فلسطین کی سرزمین پر ظلم اور بربادی کی آگ دہک رہی ہے، ایسے میں اگر بارسلونا، جیرونا یا سولسونا کے اسٹیج سے امن، انصاف اور محبت کی نغمہ سرائی ہوتی ہے تو یہ محض موسیقی نہیں، یہ مزاحمت کی ایک لطیف صورت ہے۔

“ایکٹ فار فلسطین” (Act x Palestine) کے زیرِ اہتمام اسپین کے ریجن کاتالونیا میں دو ماہ پر محیط جو خیراتی کنسرٹس کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے، وہ یورپ کے ثقافتی ضمیر کی ایک تازہ بیداری ہے۔ سو سے زائد فنکاروں کا اپنے فن کو فلسطینی عوام کے دکھ درد کے نام کرنا، اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے بندوق نہیں، ساز بھی کافی ہوتا ہے۔

یہ محض ایک فنکارانہ مہم نہیں بلکہ ایک ثقافتی تحریک ہے جس نے سیاست سے بالاتر ہو کر انسانیت کو مقدم رکھا ہے۔ “ایکٹ فار فلسطین” نے یہ ثابت کیا ہے کہ فن، جب مقصد سے جڑ جائے تو وہ صرف دل نہیں جیتتا، ضمیر کو بھی جگا دیتا ہے۔

ان کنسرٹس سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی غزہ میں انسانی امداد اور ثقافتی منصوبوں کے لیے وقف کی جا رہی ہے۔ شاید یہی وہ اصل انسانی خدمت ہے جو کسی قرارداد، کسی کانفرنس یا کسی اقوام متحدہ کی رپورٹ سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

اسی مہم کا دوسرا پہلو “ان سائلنس فورم” ہے۔ ایک ایسا اجتماع جس میں دنیا بھر کی فلسطینی تنظیمیں ایک جگہ اکٹھی ہوں گی تاکہ اس سوال کا جواب ڈھونڈا جا سکے کہ خاموشی کب تک؟ یہ فورم نہ صرف مکالمے کا دروازہ کھولے گا بلکہ دنیا کو یاد دلائے گا کہ خاموش رہنا بھی ظلم کی ایک شکل ہے۔

 18 نومبر وہ دن  جب کاتالونیا اور فلسطین کی فٹبال ٹیمیں بارسلونا کے اولمپک اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گی۔ یہ میچ کسی ٹرافی یا پوائنٹس ٹیبل کے لیے نہیں، بلکہ ایک پیغام کے لیے ہوگا: کہ زندگی اب بھی جاری ہے، کہ فلسطینی نوجوان اب بھی دوڑ سکتے ہیں، مسکرا سکتے ہیں، اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ان کے خواب اب بھی زندہ ہیں۔

یہ سب اقدامات، کنسرٹس، فورم اور فٹبال میچ دراصل ایک ہی تسلسل انسانیت کی بیداری کے مظاہر ہیں۔یہ بیداری کسی سیاسی نعرے کی محتاج نہیں۔ یہ اس احساس سے جنم لیتی ہے کہ اگر ایک قوم سسک رہی ہے تو دوسری قوموں کو چین سے بیٹھنے کا حق نہیں۔

یہ اقدام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر فن، کھیل اور ثقافت کے ذریعے بھی ہم کسی مظلوم قوم کی داد رسی کر سکتے ہیں تو پھر خاموشی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اسپانش قوم کی طرح زندہ رہیں جن کے نزدیک انسانیت ہی زندگی ہے۔

شاید آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔

کیا ہم اپنی اپنی دنیا میں اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ظلم ہمیں دکھائی اور سنائی نہیں دیتا؟

کاتالونیا کے ان فنکاروں نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ ضمیر کی آواز دبائی جا سکتی ہے، مگر مٹائی نہیں جا سکتی۔اور جب یہ آواز ساز، لفظ اور کھیل کے میدان سے اُٹھتی ہے تو وہ دنیا کے کسی ایوان سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے