ہم کیسی قوم ہیں ؟ تحریر۔خالد شہباز چوہان

آج کل آپ سوشل میڈیا ٹی وی یا کہیں بھی دیکھیں تو آپ کو بسنت گڈے(پتنگ) اور دھاتی ڈور کی بات ہوتی نظر آئے گی اب اس میں ہم حکومت کو یا کسی عہدےدار کو قصوروار کہیں ،کچھ ہماری بھی ذمہ داریاں ہیں ہم ڈور بھی بنا رہے ہم ہی خرید رہے ہیں اور ہم ہی پتنگ اڑا رہے اور ہم ہی اپنے گلے کٹا رہے کون لوگ ہیں ہم، یار جس طرح سے نوجوان مر رہے ہمارے اندر کا انسان کہاں مر گیا ہے اوپر سے حکومت ماشاءاللہ ان کا تو کیا ہی کہنا کوئی بھی کل ہماری سیدھی نہیں کوئی بھی پرابلم کو حل نہیں کرنا چاہتے، عجیب قسم کے حکمران ملے ہیں، ڈور کنٹرول نہیں کر سکتے تو پتنگ بازی پر پاپندی لگا دو، فیک نیوز پر پاپندی نہیں لگا سکتے تو سوشل میڈیا بند کر دو، ہم ووٹ نہیں گن سکتے فارم 47 دیکھ لو ۔ ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اس پر پاپندی لگا دو ،پابندی لگا دینے سے کوئی بھی مسلہ حل نہیں ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہو گا

بسنت ایک بہت پیارا تہوار بن گیا تھا یہ ایک ایسا تہوار بن گیا تھا جس پر لوگ پورے یورپ سے جا کر انجوائے کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میرے ساتھ اسپانس دوست بھی گئے تھے اور رنگوں سے بھرا لاہور ایک الگ ہی نظارہ پیش کر رہا تھا وہ جہاں جاتے تھے وہاں کی تعریفیں اس کے علاوہ سپینش جرنلسٹ وہاں گئے ڈاکومنٹری بنائی ایک ایسا تہوار بن جانے کے قابل تھا جس سے دنیا میں ایک مقام بنتا لیکن ہم نہ تو قوم نہ ہی ہجوم کہلانے کے قابل ہم نے اس تہوار کو اس طرح تہس نہس کیا کہ آج پتنگ باز آگے اور پولیس پیچھے لگی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا یہ ایک یادگار تہوار بنتا ساری دنیا سے لوگ آتے لاہور کی چھتوں ہر رنگ برنگے پتنگ میوزک بھنگڑے اور ایسا سما پیدا ہوتا ہم بھی قوموں میں شمار ہوتے میری اب بھی اپنی قوم سے اور اپنی حکومت سے عرض اس کو زیرو سے سٹارٹ کریں اور ایک نئے سرے سے اس کی ابتدا کریں اور باقائدہ بسنت ہفتہ منایا جائے لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا کریں اور ان کو ہجوم کی جگہ قوم بنانے میں اپنا کردار ادا  کریں ہر لیول پر اس پر کام ہونا چاہیے لیکن یہ وہ واحد حل جس میں پہلے عوام کو سیدھا ہونا پڑھے گا اگر ہم ہی ٹھیک نہیں تو پھر جو ہمارے ساتھ ہو رہا وہ ٹھیک ہو رہا پھر ہمیں حق نہیں ہم ایک ایماندار بندے کو لیڈر بنوا سکیں پھر جو ہو رہا وہ جسٹیفائی ہے آئے اپنے گریبان میں جھانکیں اگر ہم ٹھیک ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں پہلے وہ سنتے تھے اوپر حکمران ٹھیک ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا وہ تو ہم کر نہیں پائے اب ذرا الگ کر کے دیکھ لیں نیچے سے اوپر جاتے ہیں اس میں ذمہ داری ہماری بنتی ہے ہم ٹھیک ہو جائیں پہلے، پھر حکمران کی بات کر یں گے مر تو ہم اب بھی رہے ایک کوشش کر کے دیکھ لیتے شاید کچھ بہتری آجائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے