اطالوی شہر وینس میں داخلے پر فیس عائد
ڈھائی لاکھ آبادی کے شہر میں گزشتہ برس 2 کروڑ سیاح آئے، بڑے
کروز شپس پر پابندی لگائی جارہی ہے
اٹلی کے معروف شہر وینس نے سیاحوں سے فیس وصول کرنا شروع کردیا ہے۔ وینس میں داخل ہونے والے غیرملکی سیاحوں کو اب ایک ایپ کے ذریعے فیس ادا کرنا ہوگی۔ مقامی بلدیاتی ادارے کی طرف سے فیس کی وصولی کا بنیادی مقصد سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث بڑھنے والے انتظامی اخراجات کو کنٹرول کرنا ہے۔
وینس سیاحوں سے داخلہ فیس وصول کرنے والا دنیا کا پہلا شہر ہے۔ وینس میں سیاحوں کی آمد بہت بڑھ گئی ہے جس کے نتیجے میں انتظامیہ کو مشکلات درپیش ہیں۔ وینس نہروں کا شہر ہے جن میں کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ سیاحوں کے لیے یہ کشتیاں خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ تعطیلات کے زمانے میں وینس میں سیاحوں کی آمد بہت بڑھ جاتی ہے جس سے انتظامی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔
آج (25 اپریل) سے وینس میں رات نہ گزارنے کے ارادے سے آنے والے کسی بھی غیر ملکی سیاح کو داخلہ فیس کی مد میں 5 یورو ادا کرنا ہوں گے۔ شہر کے داخلہ مقامات پر کوئی باضابطہ مانیٹرنگ سسٹم تو موجود نہیں تاہم انسپکٹرز گشت لگاکر چیکنگ کیا کریں گے۔ داخلہ فیس دیے بغیر وینس میں دخل ہونے والوں پر 50 تا 300 درہم جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
وینس کے میئر ہوئیگی برگنارو کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی داخلہ فیس نہیں رکھی۔ ہم شہر کو بند نہیں کر رہے بلکہ اِسے رہنے کے قابل رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس تقریباً 2 کروڑ افراد نے وینس کی سیر کی تھی۔ اِن میں سے نصف نے وینس کے کسی نہ کسی ہوٹل یا لاج میں قیام کیا گیا تھا۔ وینس کی آبادی صرف ڈھائی لاکھ ہے۔
ثقافتی ورثے کے نگراں عالمی ادارے یونیسکو نے گزشتہ برس وینس کے بنیادی ڈھانچے پر مرتب ہونے والے دباؤ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان مقامات میں شمار کرنے کا عندیہ دیا تھا جو خطرات سے دوچار ہیں۔
وینس کی انتظامیہ نے داخلہ فیس متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ بڑے کروز شپس پر بھی پابندی عائد کی ہے اور سیاحوں کے گروپس کے حجم کے حوالے سے بھی نئی حدود کا اعلان کیا ہے۔
وینس کی سٹی کونسل میں سیاحت سے متعلق انتظامی امور کی نگراں سیمون وینچورینی کہتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے شہروں کو سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں سمون وینچورینی نے کہا کہ وینس بہت چھوٹا ہے اور سیاح بہت بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتظامی معاملات ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔