انصاف برائے فروخت۔۔تحریر مظہر حسین راجہ
مادر وطن میں انصاف برائے فروخت ہے اور نام نہاد جمہوریت کی بحالی کے بعد بھی ایسا ہی ہے جس میں تمام ادارے رکاوٹ ہیں۔
ماضی میں بہت سے ریٹائرڈ ججز اس سسٹم پر اپنی رائے اور عملی تجربات کا اظہار کر چکے ہیں جو کہ ایک بوسیدہ اور دیمک زدہ سسٹم ہے، پولیس، وکیل اور عدالتی عملہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور دیگر ادارے بھی کسی سے کم نہیں اور طاقتور لوگ بھی انصاف نہیں ہونے دیتے۔ عوام الناس ووٹ مانگنے کے لیے انے والوں کے سامنے ایک ہی ایجنڈا رکھیں کہ جوڈیشل سسٹم کو ایکٹیویٹ کیا جائے، جب انصاف ہوگا تو دیگر کام خود بخود درست ہو جائیں گے۔ حقیقی جرم پر ایف ائی ار درج نہ ہونا اور جھوٹی ایف ائی ار درج کر دینا، ٹائم پر ریکارڈ عدالت میں پیش نہ کرنا، وکیل یا گواہ کا عدالت میں پیش نہ ہونا، لڑائی کی صورت میں ہسپتال سے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری ہونا، جائیداد و زمین کے جھگڑے میں محکمہ مال کا ملوث ہونا اور ٹیکس چوری میں محکمہ ایف بی ار کا ٹیکس چور کو تحفظ دینا ، یہ صرف چند مثالیں ہیں وگرنہ ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رشوت ستانی کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور انصاف برائے فروخت کا اشتہار لگا کر بیٹھا ہوا ہے اور الزام عدالتوں کو دے دیا جاتا ہے کہ عدالت انصاف نہیں کرتی۔
جب ہر بندہ دھوکہ دہی اور جرم میں ملوث ہوگا اور کوئی محکمہ درست ریکارڈ پیش نہیں کرے گا اور مجرم کی پشت پناہی کرے گا یعنی ہمارے محافظ ہی ہمارے خلاف گواہی دے دیں اور غلط ریکارڈ پیش کر دیں تو عدالتوں سے انصاف کیسے ملے گا۔ سب کو سوچنے کی ضرورت ہے اور خصوصی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں جوڈیشل سسٹم پر زیادہ تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے اور کھل کر بولنا چاہیے لوگوں کو علاقائی ہاتھیوں کے چنگل سے چھڑانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اوورسیز پاکستانی عملی طور پر دوسری دنیا میں انصاف کا سسٹم دیکھ چکے ہیں اور اس سے فائدہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ابھی الیکشن سر پر ہیں، تمام قلم کار انصاف کے سسٹم پر اپنی اواز بلند کریں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور میڈیا بھی انصاف دلانے اور سسٹم بحالی کے لیے لوگوں کی مدد کریں۔