ثمن عباس کے قاتل کو تو سزا مل گئی  سوچ کو کیسے سزا دیں ؟ 

تحریر۔۔محموداصغرچودھری

کل اٹلی کی عدالت نے اپنے ہی پیاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والی ثمن عباس کے مبینہ قاتلوں کو سزا سنا دی ہے لیکن اس سوچ کو کون سزا دے گا جو پردیس آجانے کے بعد بھی لوگوں کی ذہن سے نہیں نکل پاتی۔ مجھے اچھی طرح  یاد ہے کہ مئی 2021ء میں جب یہ خبر میں نے شئیر کی تھی تو بدنامی چورن بیچنے والے فوراً میری پوسٹ پر آٹپکے تھے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ایک معصوم 18سالہ بچی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے بلکہ انہیں یہ فکر ستائے جا رہی تھی کہ ان کے ملک کی بدنامی ہوگی ۔ حیرت ہے اس سوچ پر جو جرم سے نفرت تو نہیں کرتی لیکن جرم کی خبر شئیر کرنے یا ان کے لئے سزا کا مطالبہ کرنے پر جاگ جاتی ہے اس سوچ کو شکست دینے کے لئے جانے کون سے عدالت میں مقدمہ دائر کرناہوگا البتہ کل اٹلی کی عدالت نے 18 سالہ ثمن عباس کے والدشبرعباس  اور والدہ  نازیہ شاہین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔ حالانکہ والدہ ابھی تک پاکستان میں فرار ہے ۔اور ان کے ساتھ قتل میں شامل ثمن کے  چچا دانش کو چودہ سال قید کی سزا سنائی ہے ۔

مورخہ 18دسمبر 2002ء کو پاکستان کے ضلع منڈی بہاؤالدین میں پیدا ہونے والی ثمن عباس اگر آج زندہ ہوتی تو اکیس سال کی نوجوان ہوتیں ۔ جس کی آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب سجانے اور انہیں پورا کرنے کی لگن ہوتی ۔ وہ شاید تعلیم حاصل کرکے اپنے باپ کا نام روشن کرتی یا ڈاکٹر ٹیچر یا لیڈر بن کر اپنے ہم وطنوں کے لئے کوئی باعث فخر بیٹی بنتی یا پھر کچھ بھی ایسا نہ کر تی بس ایک عام شہری کی طرح خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں زندگی کا لفط اٹھاتی ۔ لیکن ہمیں ان ساری باتوں سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں ۔ ہماری تو پہلی ترجیح ہی یہی ہے کہ لڑکی اٹھارہ کی ہوئی ہے تو کسی بھی طریقے سے ا س کی شادی کسی کزن سے کروا دیں تاکہ وہ پاکستان سے نکل سکے اوریورپ آجائے ۔  اگر لڑکی یہ کہہ کر انکار کر دے کہ وہ کیوں کسی ایسےلڑکے سے شادی کر لے جسے وہ جانتی نہیں ہے یا کیوں نہ وہ اپنا وہ حق استعمال کرے جو اسے اس کے اللہ اور رسول ﷺ نے دیا ہے کہ وہ اپنی شادی اپنی مرضی سے کرے تو اس کے اس انکار پر یا اس استدلال پر اسے وہی سزا دی جائے  جو اٹلی میں اس سے پہل حنا سلیم  کو اس کے والد نے دی تھی یا پھر اس کے بعد  ثنا چیمہ  کو اس کے والد نے دی تھی یعنی انہیں گلا گھونٹ کر ان کا چراغ گل کر دیا جائے ۔

ثمن عباس کے کیس میں اطالوی عدالت نے ثمن کی والدہ کو بھی عمر قید کی سزا سنائی ہے کہ وہ کیسی ماں ہے جو نہ صرف اپنی بیٹی کے قتل میں رضا مند تھی بلکہ اس جرم کو چھپا کر اٹلی سے اپنے خاوند کے ساتھ بھاگ کر پاکستان چلی گئی ۔ حیرت ہے اطالوی عدالت کے جج کو اتنا بھی علم نہیں کہ کچھ سال پہلے اٹلی میں ہی  ایک لڑکی  نوشین بٹ کی والدہ شہناز بیگم  نے یہ کوشش کی تھی وہ اپنی بیٹی کی زبردستی کی شادی میں رکاوٹ بنی تھی وہ اپنے شوہر کے سامنے اپنی بیٹی کے حق کے لئے کھڑی ہوگئی تھی اس نے یہی کہا تھا کہ میری بیٹی اپنی شادی اپنی مرضی سے کرے گی لیکن نوشین بٹ کے والد نے شہناز بیگم کو اینٹوں سے مار مار کر قتل کر دیا تھا  شاید  اسی لئے ثمن عباس کی والدہ نے یہ غلطی نہیں دھرائی ورنہ کون والدہ اپنی بیٹی کے قتل پر رضا مند ہوگی  

ثمن عباس کی گمشدگی مئی 2021 ء میں اطالوی اداروں کے لئے معمہ بنی تھی۔ اس کی گمشدگی کی اطلاع اس کے دوست  ثاقب ایوب نے دی تھی ان دونوں کی دوستی سوشل میڈیا پر ہوئی تھی ۔ ثاقب ایوب مسلمان بھی ہے اور پاکستانی بھی ہے لیکن والدین کو وہ ناقابل قبول تھا کیونکہ ان کے ذہن میں تو ثمن عباس کے کزن کو اٹلی لانے کی چاہ تھی ۔  پولیس نے تفتیش شروع کی تو اسے پتہ چلا کہ ثمن عباس کے والدین اور اس کا پورا خاندان اٹلی چھوڑ کر پاکستان فرار ہوچکا تھا ۔ تاہم انہیں ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس کے مطابق گھر کے پانچ افراد بیلچے کدال اور بالٹیوں کے ساتھ گھر سے باہر جاتے دکھائی دئیے ۔پولیس تفتیش میں آخر مورخہ دس مئی 2021کو ثمن کے16سالہ   بھائی نے تسلیم کیا کہ ثمن کو اس کے چچا دانش نےکمال دانشمندی سے  گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تھا اور ا سکی فیملی نے ملکراس کی  لاش ٹھکانے لگادی تھی اس کے باوجود  ثمن کی لاش چھ مہینے تک نہیں ملی آخر  مورخہ 18نومبر2022ء کو ا سکی لاش ثمن کے چچا دانش کی نشاندہی پرگھر کے نزدیکی کھیتوں میں  ملی جو زمین میں دو میٹر گہرا کھڈا کھود کر دبائی  گئی تھی ۔

چچا تو گرفتار ہوگیا لیکن ثمن کے والدین پاکستان فرار ہوچکے تھے ۔ پھر وہ ہوا جو اٹلی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اطالوی اداروں کی فرمائش پر پاکستانی اداروں نے شبر عباس کو گرفتار کیا اور پاکستان میں کیس بھی چلا لیکن اٹلی حکومت گزشتہ کئی سال میں پاکستانی لڑکیوں کے قتل اور اغوا ء برائے کزن میرج کی اس روایت کو توڑنا چاہتی تھی ۔ اطالوی  وزارت داخلہ اور پولیس اداروں پر بہت پریشر تھاانہوں نے پاکستانی اداروں سے درخواست کی کہ ان کا مجرم ان کے حوالے کیا جائے ۔لیکن اس دوران دونوں ممالک میں تبادلے کے معاہدوں کی عدم موجودگی ، پاکستانی حکومت میں سیاسی تبدیلیوں اور ججوں کے چھٹیوں جیسے معاملات رکاوٹ بنتے رہیں لیکن اطالوی وزارت داخلہ نے ہمت نہیں ہاری اور وہ ستمبر 2023ء میں ثمن عباس کے والد کو اٹلی لانے میں کامیاب ہوگئے   ۔مقدمہ چلا اور ثمن عباس کے والدین اس کے چچا اور اس کےدو کزنوں پر بھی فرد جرم عائد رہی لیکن کل ثمن کے کزنوں کو اس کیس میں بری کر دیا گیا البتہ اس کے والدشبر عباس  اور والدہ  نازیہ شاہین کو عمر قید اور چچا کو 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے ۔  

امید کی جاتی ہے کہ اطالوی عدالت کے اس فیصلے سے شاید مستقبل میں کچھ زندگیاں بچائی جا سکیں ۔ خاص طور پر مجرم کا پاکستان سے اٹلی لایا جانا ان مجرموں کی حوصلہ شکنی کرے گا جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قتل جیسا قبیح جرم کرنے کے بعد پاکستان فرار ہوسکتے ہیں ۔ حنا سلیم ، ثناء چیمہ اور ثمن عباس تو چند نام ہیں جو اپنی جان سے ہاتھ دھو کر میڈیا میں جگہ بنا سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی ایسے خاندان کئی ایسی بچیاں ہیں جو اس زبردستی کی شادی کا نشانہ بنتی ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو اطالوی لکھاری مارتینا کاستیلیانی  کی کتاب ۔۔لیبرے ۔۔ آزاد پڑھ کر دیکھ لیں جس نے ایسی  کئی لڑکیوں کے انٹرویو چھاپے ہیں جوقتل ہونے سے پہلے بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکیں ۔سوال یہ ہے کہ بطور  پاکستانی کمونٹی اس سوچ کو کیسے شکست دیں جو ایسے قتل کا جواز نہ بھی دیں لیکن پھر بھی ان معاملات میں خاموش رہ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دیتی ہیں ۔ مارتینا کاستیلیانی نے جو کتاب لکھی ہے اس کا کہنا ہے کہ اس کی کتاب کی تقریب پذیرائی میں اٹلی میں موجود پاکستانیوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہماری اکثریت کا خیال ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کو اچھالنے سے ملک کی بدنامی ہوتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جرم کے بدنامی کے ڈر سے بھی بڑا جرم اس پر پردہ ڈالنا ہے ۔ 

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے جرائم کے بعد جب یورپی ممالک اپنی امیگریشن پالیسیوں کو تبدیل کرتی ہیں تو ہم شور مچاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ برطانیہ جیسا ملک اگر فیملی بلانے کے لئے 38700پاونڈ سالانہ آمدن کی شرط رکھنے جارہا ہے تو اس کا مقصد اریجنڈمیرج کو روکنا ہوسکتا ہے حالانکہ کسی بھی قانون دان کو اتنا تو پتہ ہی ہے کہ آمدن کی یہ شرط برطانیہ کی اوسط سالانہ تنخواہ سے بھی دوگنی ہے ۔ ہمیں بطور پاکستانی کمونٹی اس خاموشی سے نکلنا ہوگا اور کمونٹی کے اندر بھی ایسی ورکشاپس کا اہتمام کرنا ہوگا کہ جس میں اجتماعی راہنمائی کا اہتمام کیا جا سکے 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے