آٹھ مارچ 2024 خواتین کا عالمی دن
کالم نگار : شنیلہ جبین زاہدی بارسلونا
یہ قانون فطرت ہے کہ جب بھی کسی چیز کو وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے تو اسے مختلف تخلیقی مراحل سے گزارنا پڑتا ہے اور اس کے لئے مختلف اشیاء کی ضروت پڑتی ہے ۔ لیکن اس پوری کائنات میں ایک ایسی ہستی بھی موجود ہے جس کی تخلیق بہت انوکھے انداز میں کی گئی ۔
جی ہاں ۔۔
وہ ہے عورت ۔۔
عورت اتنی مقدس ہستی ہے کہ اس کی تخلیق خدا نے بہت انوکھے انداز میں کی ۔ انسان کو جب بنانا چاہا تو اس کی مٹی فرشتوں کے ذریعے زمین سے منگوائی ۔ جبکہ عورت کو قدرت نے چھپا کے اسی مرد کی پسلی سے تخلیق فرمایا اور اس بات کو واضح کر دیا کہ مرد عورت کا نگہبان ہے ۔
خدا کو اس کی بے پردگی اور خزیمت ناقابل قبول تھی ۔ اسلئے پہلا وقار ، توقیر اور عظمت اسے اللہ رب العزت کے ہاں سے عطا ہوئی۔
لیکن گردش لیل و نہار نے تخفظ و نگہبانی کے معنی و مطالب صفحے ہستی سے مٹا ڈالے اور ایک نئے دور نے جنم لیا جس میں حاکم و محکوم کی ایک نئی جدت پیدا ہوگئی ۔ عورت کی جتنی تذلیل ممکن تھی وہ حتی المقدور کی جاتی رہی ۔ تاریخ کے اوراق عینی شاہد ہیں کہ صنف نازک کو کبھی تو عکاظ کی منڈیوں میں بیچا جاتا رہا اور کبھی محفلوں کی زینت بنایا گیا ۔ ظلم کی انتہا اس پہ ہوئی کہ زندہ در گور کر دی جاتی رہیں ۔ عرب کے ریگزاروں میں ان بیٹیوں کی صدائیں گونجتی رہیں، کہ کوئی تو چارہ گری کو آئے ۔
بالآخر وہ صبح طلوع ہوگئی ، جسکا برسوں سے انتظار تھا۔ ایک ایسی شمع روشن ہوئی کہ جس کی روشنی نے چاروں عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اسلام کے سپہ سالار جان کائناتﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اور ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ۔ اسلام آیا اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک ایسا نسخہ کیمیا آیا جس نے ہر میدان میں انسان کی راہنمائی کی ۔ اسلام نے عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام و مرتبہ عطا فرمایا ۔ عورت کو ماں کا درجہ عطا کیا اور نیلے آکاش کی بلندیوں سے جنت کو لا کے ماں کے قدموں میں رکھ دیا ۔ جان عالم ﷺ نے بیٹی کو قرة العين ( آنکھوں کی ٹھنڈک ) قرار دیا ۔ بیوی کو گھر کا سکون قرار دیا ۔ جان کائنات ﷺ کی سیرت مبارکہ کو مطالعہ کریں تو آپ کی حیات مبارکہ کے بیش بہا بہترین امثال ملیں گیں ، کہ آپ ﷺ نے کیسے عورت کو ہر ہر مقام دلوایا ۔ قرآن حکیم کی آیات واضح اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ اللہ نے کس طرح سے عورت کی تکریم و تحسین فرمائی ۔
اس کے حقوق اس کائنات کی سب سے بہترین کتاب میں محفوظ کر دئیے ، تاکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہے ۔ان کے ساتھ ساتھ اصول و ضوابط بھی سمجھا دئیے تاکہ کسی کو ان سے انحراف کی جرات نہ ہو۔ عورت کو اسکی حدود و قیود کا بہترین لائحہ عمل تیار کرکے بتلا دیا کہ وہ اپنی زندگیاں اسی اسلوب کے تحت گزاریں گیں تو زندگی کے کسی میدان میں مصائب و تکالیف کا سامنا نہیں کریں گیں۔
المختصر اس کتاب میں اس کائنات کے ہر عنصر کےلئے ایک محدود دائرہ کار موجود ہے ، جس کے مطابق وہ اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ ایک بار خود سوچئے، اگر یہ ذرا بھی اپنے دائرہ کار سے باہر نکلیں تو کیا قیامت برپا ہو۔ سمندر اپنی روانی و بیکرانی کے اصول و ضوابط بھول کے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ٹھاٹھیں مارتا زمین کے کسی حصے پہ آجائے تو کیسا طوفاں لے آئے ۔ سورج اگر اپنی چال الٹی چلنا شروع کر دے ، بادل اپنی حدود بھول جائیں، ہوائیں قابو سے باہر ہو جائیں تو وہ تباہی مچے کہ اعلی الامان ۔
آج اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کائنات میں واحد ایک مخلوق انسان ہے جو اپنا اصل اصول بھول گئی ۔ اپنا دائرہ کار سے نکل کے مخالف سمت کی طرف دوڑ لگا دی ہے اور معاشرے کے امن و امان کو تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ آج مختلف اقوام عالم کی تنظیمات عورت کو حقوق دلوانے اور حقیقی آزادی دلوانے کی آڑ میں ان کی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ اسلامی اصول اس کے گلے کا پھندا ہیں۔ وہ حقیقی آزادی ڈھونڈنے کے چکر میں اپنا پندار گنواہ رہی ہیں ۔
آج ہمارے ملک پاکستان جسکو اللہ و رسول اکرم ﷺ کے نام پہ آزاد کروایا ، جس کا اولین مقصد ہی قرآن و سنہ کے مطابق آزادی سے زندگی گزارنا تھی ۔ اس میں بھی عورت کو آزادی مارچ کروایا جا رہا ہے ۔ ننگے سر ، اونچی آوازیں اور بے ڈھنگا لباس پہن کے چند نام نہاد ماڈرن خواتین ، ایک عجیب بیہودہ نعرہ جس سے ہماری قوم کی بیٹیوں کو روشناس کروا رہی ہیں "میرا جسم میری مرضی "۔ یہ بات یہیں پہ ختم نہین ہو جاتی بلکہ اسلام کی باوقار اور عزت مآب خواتین کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہیں کہ وہ بھی باہر نکلیں اور اپنی عزت و وقار کے جنازے خود اپنے ہاتھوں سے نکالیں۔ ان تنظیمات کی بیہودہ سائیکی نے دختران اسلام کو ان کی اصل سے کوسوں دور لا کھڑا کیا ہے ، جس میں وہ اپنے پندار کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہیں کہ آخر کیسی آزادی کی جنگ لڑنے جا رہی ہیں۔ جس میں سراسر نقصان ان کے اپنے تشخص کا ہو رہا ہے۔ ان معزز خواتین کو قرآن کریم کی ان آیات کا پیغام سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جو اللہ پاک نے ان کیلئے دے کے بھیجا۔
القرآن ترجمہ :_اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے ُ بکلّ مار لیا کریں اور وہ نہ ظاہر کریں اپنی زینت کو ، سوائے اپنے شوہروں کے۔ ( سورہ النور)
دوسرے مقام پہ قرآن حکیم کے اندر یہ آیات نازل ہوئیں
ترجمہ : "اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں سے، اور مسلمانوں كى عورتوں سے كہہ دیجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادريں لٹكا ليا كريں اس سے بہت جلد ا نكى پہچان و شناخت ہو جايا كرےگى، پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ۔”(الاحزاب )
اس حکم میں ساری بھلائیاں عورتوں کے لئے تھیں تاکہ مومن عورتوں میں اور کافر عورتوں میں فرق ہو جائے اور ان کو ستایا نہ جائے ۔
آج کی ماڈرن عورت دیکھ لے کہ وہ اس وقت کہاں کھڑی ہے اور اس بے جا آزادی نے اسے تباہی کے کس دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے ۔
اس ماڈرن ازم نے وہ تباہی مچائی ہے کہ دختران اسلام کے تشخص کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں ، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بنات اسلام کو اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ آج اگر وہ ستائی جا رہی ہیں، ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک ہو رہا ہے ، انکی عصمتیں لٹ رہی ہیں ، یہ پھر سے قتل کی جارہی ہیں تو ان کا قصور وار کون ہے ؟ قبل از اسلام تو زبردستی ان کو محفلوں کی زینت بنایا جاتا تھا لیکن آج یہ خود اپنے آپ کو پیش کر رہی ہیں ۔ یقیں نہ آئے تو ٹک ٹاک اٹھا کے دیکھ لیں۔ اس آزاد ملک کی آزاد شہری کس آزادی کی طرف بھاگی جا رہی ہیں ۔ صد افسوس کہ اپنے کئیے پہ شرمندگی کے آثار نہیں بلکہ بڑے کروفر اور تفاخر کے ساتھ یہ کارنامہ سر انجام دیا رہا ہے ۔
"وائے ناکامی ! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا”
اس کائنات کی سب سے بہترین کتاب قرآن مجید ، جسکو اسلامک لاء کی سب سے بے مثال کتاب کا درجہ حاصل ہے ۔ وہ ان عورتوں کے بارے میں کہتی ہے کہ زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کرو ۔
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیسی آزادی اور کونسی آزادی ، کس سے آزادی چاہیئے ؟
وہ باڑ جس کو خدا نے تمہارے تحفظ کے لئے تمہارے ہی اردگرد لگائی ہے ۔ اس سے آزادی چاہیئے ؟
تو یاد رکھو جس مرد کو دن رات تم کم ظرف ، تنگ نظر اور جاہل ہونے کا خطاب دے رہی ہو ۔ وہی تمہارے گھر کے اور تمہاری عزت کے نگہبان ہیں۔ جو زمانے کی تند و تیز دھوپ میں کھڑے رہ کے تمہارے ناز اٹھانے کی خاطر کام کئے جا رہے ہیں کہ تم پہ کوئی آنچ نہ آئے ۔ تمہارے اور اس زمانے کی گندی نگاہوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بن کے کھڑے رہتے ہیں کہ کوئی غلیظ نگاہ تم تک نہ پہنچے ۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس فریب سے نکلیں ، جو آزادی کے نام پہ تمہارے پیچھے ایک عفریت کی طرح لگایا جا رہا ہے ۔ عورت ایک بات ذہن میں رکھے کہ اس کا ایک اٹھایا گیا غلط قدم اس کے ساتھ ساتھ اس کے پورے خاندان کی ناموس کو پاتال کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے ۔ اس کا عریاں لباس اور کھلا چہرہ و بال اسکے اپنے لئے مصائب کا در واہ کرتے ہیں ۔ اسکی طرف اٹھنے والی ہر نگاہ اس کے نامہ اعمال میں باعث گناہ لکھی جائیگی۔ کیونکہ یہ خود دعوت نگاہ دے رہی ہے کہ مجھے دیکھو اور سراہو ۔
آئیے اپنے اصل کو پہچانیں اور اس تعلیم کی طرف توجہ دیں ۔ جو آج سے 14 سو سال پہلے آپکے لئے اللہ نے دے کے بھیجے
تعلیم و تعلم سے لے کے زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوائیں ۔ لیکن بالکل اسی باوقار انداز میں جس کا لائحہ عمل دیا جا چکا ہے ۔
عورت کے ساتھ ساتھ مرد پہ بھی اللہ نے قانون نافذ کئیے کہ مومن مرد اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں اور دوسری نگاہ پہ سخت ممانعت کی وعید سنائی گئی ہے ۔
ہمیں مل کے واپس اپنی نسلوں کو اور بیٹیوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف لے کے جانا ہے ، جنھوں نے آنے والی نسلوں کی آبیاری کرنی یے ۔ آج بھی اگر ہم نہ جاگے تو اپنی نسلوں کا مستقبل اور اپنی عاقبت اپنے ہاتھوں سے خراب کر بیٹھیں گے ۔